رائس پیپر والا ماسک، جس سے پودے بھی اگائے جاسکتے ہیں
اترخت: ہالینڈ کی ایک کمپنی نے رائس پیپر سے ایسا ماحول دوست ماسک تیار کیا ہے جو استعمال کے کچھ عرصے بعد نہ صرف خودبخود تحلیل ہوجاتا ہے بلکہ اسے زمین میں دفنا کر پھولوں والے پودے بھی اُگائے جاسکتے ہیں کیونکہ اس کی پرتوں میں مقامی پودوں کے ننھے ننھے بیج سی دیئے گئے ہیں۔
واضح رہے کہ چاول کے علاوہ بھی کئی دوسرے پودوں سے ’’رائس پیپر‘‘ بنائے جاتے ہیں جو گزشتہ کئی صدیوں سے مشرقی ایشیا میں اشیائے خور و نوش لپیٹ کر رکھنے میں استعمال ہورہے ہیں۔
ایک ماحول دوست اور حیاتی تنزل پذیر (بایو ڈیگریڈیبل) ماسک کا خیال ہالینڈ کی ایک ڈیزائنر، ماریان ڈی گروٹ کو گزشتہ سال اس وقت آیا جب انہوں جگہ جگہ بکھرے ہوئے استعمال شدہ فیس ماسک دیکھے جو کووڈ 19 کی عالمی وبا میں لوگوں نے استعمال کرکے یونہی پھینک دیئے تھے۔
آج استعمال شدہ فیس ماسک، ماحولیاتی آلودگی میں ایک نیا مسئلہ بنتے جارہے ہیں جس سے چھٹکارا پانے کےلیے مختلف طریقے سوچے جارہے ہیں۔
خبروں کے مطابق، ماریان ڈی گروٹ نے یہ ماسک اپنی کمپنی ’’پونس اونتورپ‘‘ کےلیے ڈیزائن کیا ہے جسے ’’ماری بی بلوم‘‘ کا نام دیا گیا ہے۔
اسے بنانے کےلیے رائس پیپر کی مختلف پرتیں، آلو کے نشاستہ سے تیار کردہ گوند سے آپس میں جوڑ دی گئی ہیں۔
تیاری کے دوران ہی ان پرتوں کے بیچ میں ’’ڈچ میڈو‘‘ کہلانے والے ایک پھولدار پودے کے چھوٹے چھوٹے بیج بھی دبا دیئے جاتے ہیں۔
لہٰذا، استعمال کے بعد اگر اس ماسک کو مناسب حالات کے تحت زمین میں دفنا دیا جائے تو نہ صرف یہ تحلیل ہو کر خودبخود ختم ہوجائے گا بلکہ ان بیجوں میں سے کونپلیں بھی نکل آئیں گی جو مناسب دیکھ بھال کے بعد پھولدار پودوں میں بدل جائیں گی۔
فی الحال یہ ماسک صرف ہالینڈ، بیلجیئم اور جرمنی میں ہی دستیاب ہے۔ البتہ کمپنی کا کہنا ہے کہ وہ جلد ہی دیگر میں بھی اس کی فروخت شروع کردے گی۔
ویسے تو اسے بنانے والی کمپنی کا دعویٰ ہے کہ یہ ماسک محفوظ بھی ہے لیکن ایسی کوئی تحقیق موجود نہیں جو اس ماسک کو الرجی سے پاک اور صحت کےلیے مکمل محفوظ بھی ثابت کرتی ہو۔
اس سب کے باوجود ’’ماری بی بلوم‘‘ کو ایک بہتر اور ماحول دوست ماسک ضرور قرار دیا جاسکتا ہے کیونکہ اس سے اور کچھ ہو یا نہ ہو لیکن کم از کم آلودگی میں اضافہ نہیں ہوگا۔