پاکستان اورآئی ایم ایف کے درمیان71 کروڑ ڈالر کی قسط کیلیے مذاکرات کا آغاز آج ہوگا

اسلام آباد: پاکستان اور بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف)کے درمیان 71 کروڑ ڈالر مالیت کی اگلی قسط کیلیے پالیسی سطح کے مذاکرات آج سے شروع ہوں گے۔ پالیسی سطح کے مذاکرات کے پہلے روز اسپیشل انویسٹمنٹ فسلیٹیشن کونسل(ایس آئی ایف سی)کے حکام آئی ایم ایف کو بریفنگ دیں گے۔

مذاکرات میں ایس آئی ایف سی کے تحت متوقع براہ راست سرمایہ کاری سے متعلق تفصیلی تبادلہ خیال ہوگا، ایس آئی ایف سی کے تحت آنے والی سرمایہ کاری پر ٹیکسوں کی رعایت سمیت دیگر امور بھی زیر غور آئیں گے۔

ذرائع وزارتِ خزانہ کے مطابق پالیسی سطح کے مذاکرات میں پاکستان کی معاشی ٹیم کی قیادت نگراں وزیر خزانہ ڈاکٹر شمشاد اختر کریں گی، پالیسی سطح کے مذاکرات میں آئی ایم ایف جائزہ مشن کی قیادت مشن کے سربراہ ناتھن پورٹر کریں گے، اس سے قبل تکنیکی سطح کےمذاکرات میں ایف بی آر نے آئی ایم ایف مشن کو ٹیکس محصولات پر مطمئن کیا ہے ، اسی طرح پاور سیکٹر کے بارے میں بھی آئی ایم ایف مطمئن ہے۔

ذرائع کے مطابق تکنیکی سطح کے مذاکرات میں مجموعی طور پر آئی ایم ایف نے پاکستان کی اقتصادی کارکردگی پر اطمینان کا اظہار کیا ہے، البتہ کچھ مطالبات اور تجاویز بھی دی ہیں، ان مطالبات اور تجاویز کواب پالیسی سطح کے مذاکرات میں تفصیلی غور کے بعد حتمی شکل دی جائے گی۔

پالیسی سطح کے مذاکرات کے اختتام کے بعد پالیسی بیان جاری ہوگا اوروزارتِ خزانہ حکام پر امید ہیں کہ آئی ایم ایف کے ساتھ پالیسی سطح کے مذاکرات میں اقتصادی جائزہ کامیابی سے مکمل ہوجائے گا۔

ذرائع کے مطابق شیڈول کے مطابق آئی ایم ایف مشن کے ساتھ معاشی ٹیم کے مذاکرات 15 نومبر تک مکمل ہوں گےجس کے بعد دسمبر میں آئی ایم ایف بورڈکی جانب سے اس کی منظوری متوقع ہے، ذرائع کا کہنا ہے کہ اقتصادی جائزے کی منظوری کی صورت میں ساتھ ہی آئی ایم ایف سے اگلی قسط جاری ہونے کی توقع ہے۔

آج سے شروع ہونے والے پالیسی سطح کے مذاکرات میں فیڈرل بورڈ آف ریونیو، وزارتِ خزانہ اور اسٹیٹ بینک کی کارکردگی اور اعدادوشمار کے بارے میں معاملات زیر غور آئیں گے۔

اس کے علاو تکنیکی سطح کے مذاکرات میں پاکستان کی جانب سے 6.5 ارب ڈالر کے بیرونی فنانسنگ گیپ پورا کرنے کے لیے پیش کردہ ایکسٹرنل فنانسنگ،ایف بی آر کی جانب سی رواں مالی سال کے باقی ماندہ عرصے کیلیے پیش کردہ ریونیو پلان،درآمدات کی آڑ میں منی لانڈرنگ، مشکوک ٹرانزکشنز پر سخت پالیسی بنانے اور آئندہ بجٹ میں فنانس بل کے ذریعے مشکوک ٹرانزکشنز کیلیے سزائیں مزید سخت کرنے سے متعلق تجاویز سمیت دیگر امور بھی زیر غور آئیں گے۔

اس سے قبل پاکستان کی معاشی ٹیم اور آئی ایم ایف کے درمیان ہونے والے تکنیکی سطح کے مذاکرات میں پاکستان کی معاشی ٹیم نے آئی ایم ایف سے ایکسٹرنل فنانسنگ کا پلان شیئر کیا تھا جس میں بتایا گیا تھا کہ اسلامی ترقیاتی بینک، اے ڈی بی اور عالمی بینک سے بھی مدد لی جائے گی۔

آئی ایم ایف حکام کو بتایا گیا ہے کہ کرنٹ اکاؤنٹ خسارے میں کمی کے ذریعے مالی گیپ کم ہونے کا امکان ہےجبکہ آئی ایم ایف نے بیرونی فنانسنگ گیپ کو کم کرنے کیلیے نجکاری تیز کرنے کا مطالبہ کیا تھا۔ اس کے علاوہ یہ بھی مشورہ دیا تھا کہ حکومت عالمی بانڈ مارکیٹ میں بانڈ جاری کرنے کے آپشن پر بھی غور کرے۔

اسی طرح تکنیکی سطح کے مذاکرات میں فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) نے رواں مالی سال کیلیے ٹیکس وصولی پلان آئی ایم ایف سے شیئرکیا تھا اوررواں مالی سال کے ٹیکس اہداف کے بارے میں آئی ایم ایف کے سوالات کے جوابات دے کر ان کے تحفظات دور کرکے انہیں مطمئن کیا گیا تھا۔

آئی ایم ایف نے ریٹیلرز، زرعی انکم ٹیکس اور رئیل اسٹیٹ سے ٹیکس لینے کا مطالبہ کیا تھاجس کیلیے ریٹیل، ریئل اسٹیٹ اور زرعی شعبے پر ٹیکس کیلیے انفورسمنٹ سخت کرنے کا مطالبہ کیا تھا اورجن سیکٹرز سے وصولی کم ہے وہاں ٹیکس پالیسی موٴثر بناکر انفورسمنٹ کی تجویز دی تھی۔

ایف بی آر نے بھی ٹیکس وصولی میں شارٹ فال کی صورت میں فوری طورپرنئے اقدامات پر اتفاق کیا تھا، اس کے علاوہ تکنیکی سطح کے مذاکرات میں آ ئی ایم ایف نے پاکستان سےدرآمدات کی آڑ میں منی لانڈرنگ، مشکوک ٹرانزیکشنز پر سخت پالیسی بنانے کا بھی مطالبہ کیا تھا۔

آئی ایم ایف نے منی لانڈرنگ کے خاتمے کیلیے ایف بی آر کی استعداد بڑھانے اور انفورسمنٹ نظام سخت کرنے کے ساتھ ساتھ آئندہ بجٹ میں فنانس بل کے زریعے مشکوک ٹرانزکشنز کیلیے سزائیں مزید سخت کرنے کی بھی تجاویز دی تھیں۔

اب پالیسی سطح کے مذاکرات میں ان تمام مطالبات اور تجاویز کے تفصیلی جائزے اورغور کے بعد پالیسی سطح کے فیصلوں پر اتفاق ہوگا جس کی روشنی میں اقتصادی جائزے کی تکمیل ہوگی، اور اگر اقتصادی جائزہ کامیابی سے مکمل ہوجاتا ہے تو پھر آئی ایم ایف جائزہ بورڈ سے دسمبر میں اس جائزے کی منظوری کے ساتھ ساتھ قرضے کی اگلی قسط جاری کرنے کی منظوری کا امکان ہے۔

متعلقہ آرٹیکلز

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button