آئین اور قانون چیف جسٹس کی خواہشات کے تابع نہیں، قاضی فائز عیسیٰ
اسلام آباد: چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا ہے کہ آئین اور قانون چیف جسٹس کی خواہشات کے تابع نہیں ہیں اگر ایسا ہوا تو یہ آئین کی بالادستی اور قانون کی حکمرانی کے لیے تباہ کن ہوگا، ہم ماسٹرز نہیں بلکہ آئین اور عوام کے نوکر ہیں، چیف جسٹس کو آئین و قانون سے آگے نہیں بڑھنا چاہیے۔
یہ بات انہوں ںے سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر کیس کی سماعت کے دوران ریمارکس میں کہی۔ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں فل کورٹ بینچ نے کیس کی سماعت کی۔ دوران سماعت، سپریم کورٹ میں پریکٹس پروسیجر کیس میں اضافی دستاویز جمع کرائی گئیں۔
اضافی دستاویز میں پریکٹس اینڈ پروسیجر قانون کی پارلیمنٹ کارروائی کا ریکارڈ جمع کرایا گیا۔ درخواست گزار امیر خان کی جانب سے وکیل خواجہ طارق رحیم نے جمع کرایا۔ متفرق درخواست میں سپریم کورٹ سے اضافی دستاویز کو منظور کرنے کی استدعا کی گئی ہے۔
سپریم کورٹ میں جمیعت علمائے اسلام ف نے بھی تحریری جواب جمع کر رکھا ہے جس میں استدعا کی گئی کہ سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کے خلاف درخواستیں مسترد کی جائیں، عدالتی فیصلوں کے مطابق مذکورہ ایکٹ آئینی اور قانون سے متصادم نہیں ہے، پارلیمنٹ ہی وہ فورم ہے جو قانون بنا سکتا ہے یا اس میں ترمیم کرسکتا ہے۔
جے یو آئی نے جواب میں موقف اپنایا کہ درخواست گزاروں کا یہ موقف بے بنیاد ہے کہ مذکورہ قانون آرٹیکل 184(3) کے متصادم ہے، مذکورہ قانون سے عدالت عظمیٰ کو حاصل اختیارات میں کوئی تبدیلی نہیں کی گئی، آئین پاکستان اختیارات کسی ایک فرد کو تفویض نہیں کرتا۔
صدر سپریم کورٹ بار عابد زبیری کے دلائل
صدر سپریم کورٹ بار عابد زبیری نے دلائل کا آغاز کرتے ہوئے کہا کہ اس معاملے پر الگ قانون سازی اختیارات سے تجاوز ہوگا، آئین پارلیمنٹ کو اس معاملے پر قانون سازی کی اجازت نہیں دیتا۔
جسٹس اعجاز الاحسن نے وکیل عابد زبیری سے استفسار کیا کہ آپ کہہ رہے ہیں کہ نئی قانون سازی نہیں ہوسکتی؟ آپ کے مطابق سپریم کورٹ پہلے سے موجود قانون کے مطابق رولز بنا سکتی ہے۔
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ ہم سبجیکٹ ٹو لا کا لفظ کاٹ دیں فرق کیا پڑے گا؟ وکیل عابد زبیری نے کہا کہ فرق نہیں پڑے گا، جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ فرق نہیں پڑے گا نا، تھینک یو، اگلے پوائنٹ پر چلیں۔
جسٹس اعجاز الاحسن نے استفسار کیا کہ آئینی اختیارات سے سپریم کورٹ رولز بنا لے تو بعد میں کوئی قانون سازی بدل سکتی ہے؟ عابد زبیری نے کہا کہ ان کے پاس اختیار نہیں رہ جاتا قانون سازی کرنے کا۔
چیف جسٹس پاکستان نے ریمارکس دیے کہ آپ یہ سمجھ کر دلائل دے رہے ہیں کہ نہ ختم ہونے والا کیس ہے تو ایسا نہیں ہے، فل کورٹ کی کارروائی کے باعث باقی مقدمات نہیں سن پا رہے، فل کورٹ کی کارروائی کے باعث زیر التوا کیسز کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے، یہ آج اس سماعت کا آخری دن ہے۔
چیف جسٹس کا دوران سماعت اضافی کاغذات جمع کرانے پر اظہار برہمی
چیف جسٹس نے دوران سماعت اضافی کاغذات جمع کرانے پر اظہار برہمی کرتے ہوئے کہا کہ ہم نے کہا تھا یہ پہلے دائر کر دینا اب کاغذ آرہے ہیں، کیا ایسے نظام عدل چلے گا کیا دنیا میں ایسے ہوتا ہے؟ مغرب کی مثالیں آپ دیتے ہیں کیا وہاں یہ ہوتا ہے؟ آپ جیسے سینیئر وکیل سے ایسی توقع نہیں ہوتی، ہمارا لیول اتنا تو کم نہ کریں، پہلے بھی کہا تھا اگر کچھ جمع کروانا ہے تو سماعت سے پہلے دے دیں، یہ درست طریقہ کار نہیں ہے، کیا عدالتی نظام ایسے چلے گا؟ کس دنیا میں ایسا ہوتا ہے؟ مغرب کی مثالیں تو سب دیتے ہیں ، مغرب میں نظام عدل ایسے چلتا ہے؟
وکیل عابد زبیری نے کہا کہ نیو جرسی کی عدالت کے فیصلے کا حوالہ دینا چاہتا ہوں۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ کم از کم امریکی سپریم کورٹ کے فیصلے کا تو حوالہ دیں، ہمارا لیول اتنا نا گرائیں کہ نیو جرسی کی عدالت کے فیصلے کو یہاں نظیر کے طور پر پیش کر رہے ہیں اور یہ تو فیصلہ بھی نہیں ہے۔
جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ ہم یہاں آئین اور قانون سازوں کی نیت دیکھ رہے ہیں، اگر آئین سازوں کی نیت دیکھنی ہے تو آرٹیکل 175 دیکھیں، اگر آئین سازوں نے مکمل اختیار سپریم کورٹ کو دینا ہوتا تو واضح طور پر لکھ دیتے، اگر کوئی بھی ضابطہ قانون یا آئین سے متصادم ہوگا تو وہ خود ہی کالعدم ہو جائے گا۔
چیف جسٹس پاکستان نے ریمارکس دیے کہ میں سوال واضح کر دیتا ہوں، جوڈیشل کمیشن اور سپریم جوڈیشل کونسل کے رولز سے متعلق آئین میں لکھا ہے کہ آئینی باڈیز خود قانون بنائیں گی، جب سپریم کورٹ کے ضابطوں سے متعلق آرٹیکل 191 میں لکھا ہے کہ قانون سے بھی بن سکتے ہیں، سوال یہ ہے کہ آئین سازوں نے خود آئین کے ساتھ قانون کا آپشن دیا۔
وکیل عابد زبیری نے کہا کہ نیو جرسی کی عدالت میں کہا گیا کہ قانون سازی کرنے اور رولز بنانے میں فرق ہے۔
جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیے کہ آرٹیکل 175 ٹو کو آرٹیکل 191 کے ساتھ ملا کر پڑھیں، آرٹیکل 175 ٹو کسی بھی عدالت کے مقدمات کو سننے کا اختیار بتایا گیا ہے۔
وکیل عابد زبیری نے کہا کہ سپریم کورٹ کے رولز سے متعلق آرٹیکل 142 اے اور اینٹری 55 کو ملا کر پڑھنا ہوگا، سپریم کورٹ کے رولز بنانے کے اختیار سے متعلق آئینی شق کو تنہا نہیں پڑھا جا سکتا۔
چیف جسٹس پاکستان نے ریمارکس دیے کہ فل کورٹ یہ مقدمہ سن رہی ہے تا کہ وکلاء سے کچھ سمجھ اور سیکھ سکیں، آئینی شقوں پر دلائل دیں۔
جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیے کہ آئینی شقوں کو ملا کر پڑھنا ہوتا ہے، آئین کے کچھ آرٹیکل اختیارات اور کچھ ان اختیارات کی حدود واضح کرتے ہیں۔ وکیل عابد زبیری نے کہا کہ یہ تو معزز سپریم کورٹ کا فیصلہ بھی ہے۔
جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ ہم یہاں آئین اور قانون سازوں کی نیت دیکھ رہے ہیں، اگر آئین سازوں کی نیت دیکھنی ہے تو آرٹیکل 175 دیکھیں، اگر آئین سازوں نے مکمل اختیار سپریم کورٹ کو دینا ہوتا تو واضح طور پر لکھ دیتے، اگر کوئی بھی ضابطہ قانون یا آئین سے متصادم ہوگا تو وہ خود ہی کالعدم ہو جائے گا۔ رولز کبھی ایکٹ سے اوپر نہیں ہوتے۔
صدر سپریم کورٹ بار عابد زبیری نے کہا کہ رولز آئین کے بر خلاف نہیں بن سکتے۔
جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیے کہ لاہور ہائیکورٹ میں بھی قانون اور رولز بنانے کے اختیارات پر فیصلہ دیا ہے، ہائیکورٹ نے فیصلہ دیا کہ رولز بنانا ہائیکورٹ کا اختیار ہے اور پارلیمنٹ رولز نہیں بنا سکتی نہ ہی رولز بنانے کے لیے قانون سازی کر سکتی ہے، موجودہ قانون کے دائرہ کار میں رہ کر رولز میں ردو بدل کرنے کا اختیار صرف سپریم کورٹ کے پاس ہے۔
سپریم کورٹ خلاف آئین کوئی رولز بنائے تو کوئی تو یاد دلائے گا کہ آئین کی حدود میں رہیں، چیف جسٹس
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ سپریم کورٹ خلاف آئین کوئی رولز بنائے تو کوئی تو یاد دلائے گا کہ آئین کی حدود میں رہیں۔ وکیل عابد زبیری نے دلائل میں کہا کہ آئین کے مطابق سپریم جوڈیشل کونسل اپنے قوانین خود بنائے گی، رولز کی وقعت آئینی ضوابط کے برابر ہوگی۔
جسٹس منیب اختر نے کہا کہ کیا وفاقی شرعی عدالت اپنے رولز بنانے کے اختیار میں سپریم کورٹ سے بھی بڑی سطح پر ہے؟ وکیل عابد زبیری نے بتایا کہ سپریم کورٹ اگر اپنے رولز خود بنائے تو وہ تمام رولز سے سب سے اونچی سطح پر ہوں گے۔
جسٹس مظاہر نقوی نے کہا کہ سپریم کورٹ کے رولز پر پارلیمنٹ نے پابندی لگائی لیکن ہائیکورٹ اور شرعی عدالت کے ضابطوں پر کیوں نہیں؟ جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ ہائیکورٹس اپنے پریکٹس اینڈ پروسیجر بنانے کے لیے خود بااختیار ہے۔
وکیل عابد زبیری نے کہا کہ اگر آج بھی سپریم کورٹ اپنے رولز خود بنا لے تو کوئی اعتراض نہیں اٹھا سکتا، آئین کہتا ہے کہ سپریم جوڈیشل کونسل اپنے قوانین خود بنائے گی جن کی وقعت آئینی ضوابط کے برابر ہوگی۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیے کہ اس سے پہلے دنیا ہم پر انگلی اٹھائے خود اٹھاتے ہیں، 184(3) کا ہزاروں مقدمات میں استعمال کیا گیا ہے اور اسکا استعمال کیسے ہوا یہ ایک حقیقت ہے، پاکستان میں جو کچھ ہوا آپ اس کو نظر انداز کر رہے ہیں۔
عابد زبیری نے کہا کہ 184(3) کے غلط استعمال سے متفق ہوں، غلط استعمال ہوا یا صحیح دیکھنا ہے یہ اختیار کس کو ہے۔
جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ پارلیمان کے پاس اختیار ہے کہ وہ سپریم کورٹ کے اختیار بڑھا سکتی ہے۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ سوال اچھے یا برے کا نہیں سوال قانون بنانے کی اہلیت کا ہے، آپ بتایے کس کا اختیار ہے سپریم کورٹ بارے قانون بنانے کا۔
وکیل عابد زبیری نے کہا کہ عدالت نے فیصلہ کرنا ہے یہ اختیار پارلیمان کا ہے یا نہیں۔
جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے کہ انصاف کی فراہمی متاثر ہو رہی ہے، بنیادی حقوق کی خلاف ورزی ہونے پر کیا قانون سازی ہو سکتی ہے یا نہیں۔ چیف جسٹس اس مقدمہ کو سماعت کے لیے مقرر کرسکتے تو دوسرے جبری گمشدگی جیسے مقدمات کیوں نہیں، آپ نے ابھی درخواست کے قابل سماعت ہونے کی رکاوٹ کو بھی عبور نہیں کیا، بتائیں کہ اس قانون سازی سے کونسا بنیادی حق متاثر ہوا ہے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ 184(3) میں ہم یہ مقدمہ کیسے سن سکتے ہیں؟ آپ کہہ رہے ہیں نہ ہم اپنے دائرہ اختیار بڑھا سکتے ہیں نہ پارلیمان، ہمیں آپ کہہ رہے ہیں کہ 184(3) میں عدالت اپنا دائرہ اختیار بڑھا دے۔
جسٹس جمال خان مندو خیل نے کہا کہ اس ایکٹ کو دیکھنے کے لیے پہلے بنیادی حقوق کی خلاف ورزی کو دیکھنا ہے۔ وکیل عابد زبیری نے کہا کہ دیکھنا ہے کہ کیا پارلیمان کا اس قانون کو بنانے کا اختیار ہے۔
اگر ہم نے غلطی درست نہیں کی تو کیا پارلیمان بھی درست نہیں کرسکتا، چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ
چیف جسٹس پاکستان نے ریمارکس دیے کہ ہمیں یہ سمجھ نہیں آرہی آپ کو اس قانون سے مسئلہ کیا ہے، آپ بتائیں یہاں آئین کے آرٹیکل 184/3 کا اختیار کیسے استعمال کیا گیا، سپریم کورٹ کے ہیومن رائٹس سیل میں کیا ہوتا رہا؟ رولز میں اسکا ذکر کہاں ہے؟ اس سے پہلے کہ دنیا 184/3 کے اختیارات پر انگلی اٹھائے ہم خود درست کرلیں، اگر ہم نے غلطی درست نہیں کی تو کیا پارلیمان بھی درست نہیں کرسکتا، آپ ایک سیاسی جماعت کے وکیل ہیں۔
وکیل عابد زبیری نے کہا کہ نہیں میں کسی سیاسی جماعت کا وکیل نہیں ہوں، جس پر چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا مطلب آپ تحریک انصاف کے وکیل نہیں ہیں؟ جس پر عابد زبیری نے بتایا کہ نہیں میں سپریم کورٹ بار کا صدر ہوں آزاد حیثیت میں پیش ہوا ہوں۔
چیف جسٹس پاکستان نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ کیا ہیومن رائٹس سیل کا تذکرہ آئین یا سپریم کورٹ رولز میں تذکرہ ہے؟ آرٹیکل 184 تھری سے متعلق ماضی کیا رہا؟ یا تو کہہ دیتے کہ 184 تین میں ہیومن رائٹس سیل بن سکتا تھا، اس بات پر تو آپ آنکھیں بند کر کے بیٹھ گئے ہیں، اس سے پہلے کہ دنیا مجھ پر انگلی اٹھائے میں خود اپنے اوپر انگلی اٹھا رہا ہوں، نیو جرسی نا جائیں، پاکستان کی ہی مثال دے دیں، سپریم کورٹ غلطی کر دے تو کیا پارلیمنٹ اس کو درست کر سکتی ہے؟
وکیل عابد زبیری نے کہا کہ آپ کی رائے سن چکا ہوں، ابھی آرٹیکل 184 تین پر آ رہا تھا، میں آپ سے متفق ہوں کہ آرٹیکل 184 تین کا غلط استعمال ہوتا رہا۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ آپ نے شروع میں پارلیمان کی نیت پر حملہ کیا اور میں کہتا ہوں پارلیمان کی نیت اچھی ہے۔
جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیے ککہ اختیارات کی تقسیم کی وجوہات ہیں، اگر پارلیمان کو سپریم کورٹ کے معاملات میں مداخلت کے دروازے کھول دیں۔ ممکن ہے پارلیمان کا قانون اچھا ہو یا برا لیکن سوال دروازے کے کھولنے کا ہے۔
وکیل عابد زبیری نے کہا کہ آئین کے اصل دائرہ اختیار 184/3 میں اپیل کا حق نہیں دیا گیا، جس چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ اس کی جوابی دلیل میں یہ دے سکتا ہوں کہ آرٹیکل 184/3 کا استعمال کیسے ہوا، کسی سیاسی جماعت پر پابندی عائد کرنے کا فیصلہ ہو جائے تو کیا اس کے خلاف اپیل نہیں ہونی چاہیے، اگر کوئی مریض کہیں مر رہا ہو اور کوئی میڈیکل کی ذرا سی سمجھ رکھتا ہو تو وہ اس لیے مرنے دے کہ وہ ڈاکٹر نہیں ہے؟ پارلیمنٹ نے اچھی نیت سے قانون سازی کی۔
جسٹس اعجازالاحسن نے ریمارکس دیے کہ اگر پارلیمنٹ کے لیے دروازہ کھول دیتے ہیں کہ وہ سپریم کورٹ کے ہر معاملے میں مداخلت کرے گی، ایک بار دروازہ کھل گیا تو اس کا کوئی سرا نہیں ہوگا، قانون سازی اچھی یا بری بھی ہو سکتی ہے، یہ نہیں ہو سکتا کہ قانون سازی درست ہے تو ٹھیک ہے یا ورنہ اس کو کالعدم قرار دے دیں، آئین اس طرح سے نہیں چل سکتا۔
چیف جسٹس پاکستان نے ریمارکس دیے کہ ماضی کو دیکھیں، ایک شخص آتا ہے اور پارلیمنٹ کو ربر اسٹیمپ کر دیتا ہے، امریکا میں یہ سب نہیں ہوتا، ہمارا ماضی بہت بوسیدہ ہے، سپریم کورٹ بار خود تو درخواست لے کر نہیں آئی۔
وکیل عابد زبیری نے کہا کہ سپریم کورٹ بار نے جو درخواستیں کیں وہ تو مقرر نہیں ہو رہیں۔ چیف جسٹس پاکستان نے ریمارکس دیے کہ اگر آپ اس کیس کو ختم کریں تو باقی مقرر ہوں۔
جسٹس مسرت ہلالی نے استفسار کیا کہ ایکٹ میں آئین کی کون سے شق کا حوالہ دیا گیا ہے؟ ایسے تو سادہ اکثریت سے قانون سازی کا دروازہ کھولا جا رہا ہے۔ جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیے کہ آئین میں سادہ اکثریت سے بلواسطہ ترمیم کر کے دروازہ کھولا جا رہا ہے۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ کل کی باتیں نا کریں آج کی صورتحال بتائیں۔
جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ آرٹیکل 184 تھری کے اختیار کو آئین میں رہ کر استعمال کیا گیا ہوتا تو ایسی قانون سازی نا ہوتی، آپ نا مدعی ہیں نا مدعا علیہ تو پھر اس ایکٹ کی مخالفت کیوں کر رہے ہیں؟
جسٹس مظاہر نقوی نے کہا کہ آرٹیکل 184 تھری میں اپیل سے اصل دائرہ اختیار کے کیس کی دوبارہ سماعت کا حق کیسے دے دیا گیا؟
چیف جسٹس قاضی فائز نے عابد زبیری سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ لگتا ہے آپ چاہتے ہیں آرٹیکل 184کی شق تین کے کیسز زیر التوا رہیں کبھی ختم ہی نہ ہوں۔ جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ 184کی شق کے فیصلے کے خلاف اپیل کا حق ملنے سے کیا اثر پڑے گا۔
وکیل عابد زبیری نے کہا کہ ایسے میں 1973سے اپیل کا حق مل جائے گا۔ چیف جسٹس نے عابد زبیری سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ اپیل کا حق ملنے سے ہمارا کام بڑھے گا، آپ کو کیوں گھبراہٹ ہو رہی ہے، پارلیمنٹ کو تو کہتے ہیں نمبر گیم پوری ہونی چاہیے لیکن فرد واحد آ کر آئینی ترمیم کرے تو وہ ٹھیک ہے، پارلیمنٹ کچھ اچھا کرنا چاہتی ہے تواس کو کچلنا کیوں چاہتے ہیں؟
جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ سپریم کورٹ کا دائرہ اختیار بڑھانے سے متعلق دلائل دیں۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ہم بھی مانتے ہیں کہ صوبائی اسمبلیوں کو ایسی قانون سازی کا اختیار نہیں ہے، بس اب دلائل ختم کریں اور یہ تاثر مت دیں کہ آپ یہ کیس ختم کرنا نہیں چاہتے۔
جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ اگر کسی نے 188 کے تحت نظر ثانی ایک بار دائر کر دی تو وہ اپیل نہیں کر سکتا، ایکٹ کے تحت نظر ثانی کے خلاف تو اپیل کا حق نہیں دیا گیا۔
کچھ دیر وقفے کے بعد سماعت دوبارہ شروع
درخواست گزار عمر صادق کے وکیل ڈاکٹر عدنان خان نے اپنے دلائل میں کہا کہ قانون سازی کے ذریعے چیف جسٹس آفس کو بے کار کرایا گیا۔
جسٹس جمال خان مندو خیل نے کہا کہ اگر چیف جسٹس اور ججز ایک ہی ہیں تو کیا چیف جسٹس اکیلے فوسٹر بنا سکتا ہے۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ یہاں چیف جسٹس کے اختیار کو بانٹا گیا سپریم کورٹ کے اختیار کو نہیں۔
عدنان خان نے کہا کہ اس قانون کے ذریعے چیف جسٹس کے اختیارات کو کم کیا گیا، آئین کے تحت انتظامی معاملات مین ڈرائیونگ سیٹ پر چیف جسٹس ہی ہوتا ہے۔
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ آپ کا پوائنٹ کیا ہے؟
وکیل عدنان خان نے بتایا کہ پارلیمنٹ کو ایکٹ کے ذریعے سپریم کورٹ کے رولز بنانے کا اختیار حاصل نہیں، آئین سازوں نے دانستہ طور پر پارلیمنٹ کو سپریم کورٹ کے ضابطوں میں رد و بدل کا اختیار نہیں دیا، سپریم کورٹ دو بنیادوں پر کھڑا ہے، ایک چیف جسٹس اور دوسرا باقی ججز۔
جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ ایسے تو فل کورٹ بلانے کی کیا ضرورت ہے صرف چیف جسٹس کیس سن لیتا۔
چیف جسٹس پاکستان نے ریمارکس دیے کہ چیف جسٹس کو جہاں اختیارات دیے گئے وہ آئین میں درج ہیں، چیف جسٹس کو سپریم کورٹ کے سوا کہاں تنہا اختیارات دیے گئے۔
وکیل عدنان خان نے کہا کہ آئین کہتا ہے چیف جسٹس خود بغیر کسی مشاورت کے بینچز بنا سکتا ہے، چیف جسٹس اور دیگر ججز میں فرق انتظامی اختیارات ہیں۔ یہ قانون ہمیں ایک ڈیڈ اینڈ کی طرف لے جا سکتا ہے، دو سینیئر ججز کل بینچ میں چیف جسٹس کو رکھیں ہی نہ اور جبری رخصت پر بھیج دیں، چیف جسٹس کیا پھر صرف چیمبر ورک کرے گا؟
جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ آپ مستقبل کی باتیں کر رہے ابھی بتائیں بنیادی حقوق کون سے متاثر ہوئے؟ آپ ہمارے سامنے اپنے کون سے بنیادی حق کا دفاع کر رہے ہیں؟
وکیل عدنان خان نے کہا کہ پارلیمنٹ کو قانون سازی کا کوئی اختیار نہیں ہے اور اس سے تمام بنیادی حق متاثر ہوتے ہیں، سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ سے انصاف تک رسائی کے آرٹیکل 4 کی خلاف ورزی ہوئی، ایکٹ میں فوری مقرر ہونے والے مقدمات کا طریقہ کار دے کر سپریم کورٹ کی تضحیک کی گئی۔
چیف جسٹس پاکستان نے ریمارکس دیے کہ ہم پہلے بھی کیس مقرر کرنے کے لیے اپنا دماغ استعمال کیا کرتے تھے، میں نے تو پہلے ہی کیس منیجمنٹ کمیٹی کو کیسز کے تقرر کا اختیار دیا ہے، کیا میں نے کیس منیجمنٹ کمیٹی بنا کر آئینی خلاف ورزی کی؟
جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ پشاور ہائیکورٹ کے حراستی مراکز سے متعلق فیصلے کے خلاف اپیل 4 سال سے سپریم کورٹ میں زیر التوا ہے، اہم کیسز کے مقرر نا ہونے پر قانون سازی کیوں نہیں ہو سکتی؟ چیف جسٹس پاکستان نے استفسار کیا کہ اگر میں حراستی مراکز سے متعلق کیس مقرر نہیں کرتا تو آپ کے پاس کیا حل ہوگا؟
وکیل عدنان خان نے کہا کہ مشاورت اچھی چیز ہے اور چیف جسٹس اپنے ساتھیوں میں سے کسی سے بھی مشاورت کر سکتے ہیں لیکن اس قانون میں کہیں مشاورت کا ذکر درج نہیں ہے۔
چیف جسٹس پاکستان نے ریمارکس دیے کہ کوئی ایسا قانون یا شرعی قانون ہے کہ اپیل کا کوئی حق نہیں ہے؟ قانون یا شرع کی رو میں کہاں درج ہے کہ قاضی کا فیصلہ آخری ہوگا؟ کوئی حوالہ دے دیجیے۔
وکیل عدنان خان نے کہا کہ میں ریفرنس جمع کرا دوں گا، جس کے بعد درخواست گزار عمر صادق کے وکیل عدنان خان کے دلائل بھی مکمل ہوگئے۔
چیف جسٹس اور وکیل امتیاز صدیقی کے درمیان سخت جملوں کا تبادلہ
دوران سماعت، وکیل امتیاز صدیقی نے دلائل کے لیے وقت نا دینے پر اعتراض اٹھا دیا، جس پر چیف جسٹس اور وکیل امتیاز صدیقی کے درمیان سخت جملوں کا تبادلہ ہوا۔
وکیل امتیاز صدیقی نے کہا کہ آپ نے کہا تھا کہ پہلے ہمیں سنیں گے پھر اٹارنی جنرل کو سنیں گے، ہمیں نا سننا ناانصافی ہے۔
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کہاں لکھا ہے حکمنامے میں کہ آپ کو ابھی سننا ہے؟ وکیل امتیاز صدیقی نے کہا کہ آپ ہمارے ساتھ اپنا سلوک دیکھیں، جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ کوئی بات کرنے کی تمیز بھی ہوتی ہے، پچھلی سماعت کا تمام ججز کے دستخط کے ساتھ حکمنامہ جاری ہوا تھا اور حکمنامہ میں درج ہے کہ امتیاز صدیقی کے دلائل مکمل ہو چکے اور وہ مزید دلائل دینا نہیں چاہتے۔
وکیل امتیاز صدیقی نے کہا کہ میرے ساتھی خواجہ طارق رحیم آپ کے رویے کی وجہ سے آج عدالت نہیں آئے، خواجہ طارق رحیم نے آپ کو پیغام پہنچانے کا کہا ہے۔
چیف جسٹس پاکستان نے ریمارکس دیے کہ آپ اپنی نشست پر بیٹھ جایے ورنہ میں کچھ ایشو کروں، وکیل امتیاز صدیقی واپس نشست پر براجمان ہوگئے۔
چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل کو روسٹرم پر بلا لیا۔
درخواست گزار محمد شاہد رانا ایڈوکیٹ کے دلائل
وکیل شاہد رانا نے دلائل میں کہا کہ ایکٹ کے تحت اپیل کا حق دیا گیا، اپیل تو دوسرے ججز کے پاس جانا ہوتی ہے، 15 جج کیس کا فیصلہ کریں تو اپیل کہاں جائے گی؟
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ اپیل کہیں نہیں جائے گی اللہ کے پاس جائے گی۔
وکیل شاہد رانا نے کہا کہ ہائیکورٹ میں فیصلہ دینے والے جج سے انٹرا کورٹ اپیل میں مختلف ججز کیس سنتے ہیں، سپریم کورٹ میں اپیلیں آرٹیکل 185 کے تحت ہوتی ہیں، آرٹیکل 185 کے تحت اپیل اب آرٹیکل 184 میں تو نہیں ہو سکتی۔
چیف جسٹس پاکستان نے ریمارکس دیے کہ ہم آپ کو اس بات کا جواب فیصلے میں دے دیں گے، یہ معاملہ پہلے کبھی کیوں نہیں اٹھایا گیا؟ کیا پتا سپریم کورٹ نے اپنے اختیارات سے تجاوز کیا ہو، سپریم کورٹ اپنے اختیارات سے تجاوز کرے تو قانون سازی سے اس کو درست نہیں کیا جا سکتا، یہاں بار کے انتخابات جیتنا مشکل ہے وہاں دو تہائی اکثریت کے لیے نمبرز پورے کرنا کتنا مشکل ہوتا ہے، سپریم کورٹ کے آرٹیکل 184 تھری کے دائرہ کار میں کیے گئے تمام فیصلے درست ہیں؟
وکیل شاہد رانا نے کہا کہ سپریم کورٹ کو آرٹیکل 184 تھری کے تحت مفاد عامہ کے کیسز سننے چاہیے مفاد خاصہ کے نہیں، پوری دنیا کا مالک دلیل سے بات کرتاہے تو سب کو دلیل سے کرنی چاہیے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ یہ بات تو آپ کے خلاف جا رہی ہے۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ مجھ سے پہلے مسلم لیگ ق کے وکیل دلائل دینا چاہتے ہیں، جس کے بعد مسلم لیگ ق کے وکیل زاہد ابراہیم نے دلائل دیے۔
مسلم لیگ ق کے وکیل کے دلائل
چیف جسٹس نے مسلم لیگ ق کے وکیل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ آپ اپنا پوائنٹ واضح کریں میں نے اپنا قلم ہوا میں اٹھا رکھا ہے، سسپینس میری جان لے رہا ہے۔
وکیل زاہد ابراہیم نے کہا کہ ایکٹ کے تحت اس عدالت کے آئینی اختیارات میں کمی نہیں کی گئی، سپریم کورٹ سے متعلق قانون سازی کا اختیار آرٹیکل 142 سے نکلتا ہے، آئین پارلیمنٹ کو سپریم کورٹ سے متعلق قانون سازی کے لیے کھلا اختیار بھی نہیں دیتا۔
جسٹس محمد علی مظہر نے استفسار کیا کہ کیا فیڈرل لیجسلیٹیو لسٹ کی اینٹری 55 کا یہاں کوئی عمل دخل نہیں ہوگا؟ چیف جسٹس پاکستان نے ریمارکس دیے کہ سوالات کے جوابات بعد میں دیجیے گا پہلے اپنی دلیل مکمل کریں۔
وکیل زاہد ابراہیم نے دلائل میں کہا کہ فیڈرل لیجسلیٹیو لسٹ کی اینٹری 55، 59 کے ساتھ آرٹیکل 191 کو دیکھیں، اس عدالت نے جسٹس انور بھنڈر کیس میں آرٹیکل 188 سے متعلق کہا کہ سپریم کورٹ کے اختیارات کم نہیں کیے جا سکتے۔
جسٹس منیب اختر نے ریمارکس میں کہا کہ اسی فیصلے کے اگلے حصے میں کہا گیا کہ سپریم کورٹ رولز کو بہتری کے لیے پارلیمنٹ بدل بھی نہیں سکتی، ایک جملے پر انحصار نا کریں اور پورا فیصلہ پڑھیں، جن فیصلوں کا حوالہ آپ دے رہے ہیں وہ ان ضوابط سے متعلق ہیں جن کا اختیار پہلے سے قانون دیتا ہے۔
جسٹس منیب اختر کے وکیل زاہد ابراہیم سے سوالات پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ سوالوں کا جواب بعد میں دیں پہلے پوائنٹس بتائیں، میرا قلم پھر ہوا میں رہ جاتا ہے، میرا قلم ہوا میں رہ جاتا ہے آپ پہلے اپنا پوائنٹ پورا کر دیں۔
جسٹس یحییٰ آفریدی نے کہا کہ آپ فل کورٹ کو اپنی رائے بتا دیں۔ وکیل زاہد ابراہیم نے کہا کہ یہ کیس خود تسلیم کر رہا ہے کہ پارلیمنٹ قانون سازی کر سکتی ہے۔
جسٹس عائشہ ملک نے ریمارکس دیے کہ کیسے ممکن ہے کہ ’’سبجیکٹ ٹو لاء‘‘ لکھ کر پارلیمنٹ کو سپریم کورٹ کے رولز پر قانون سازی کا اختیار دے دیا گیا ہو؟ آرٹیکل 188 اور آرٹیکل 191 میں فرق ہے۔
درخواست گزاروں کے دلائل مکمل ہونے پر سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ سماعت میں مختصر وقفہ کیا گیا۔
سماعت آدھے گھنٹے بعد دوبارہ شروع
جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیے کہ آئین کے مطابق پارلیمان سپریم کورٹ ہے اختیارات بڑھا سکتی ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ کیا ہم بڑھانے کے لفظ کو پابندی کے لیے استعمال کریں گے؟
جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیے کہ اختیارات کو بڑھانے کو آرٹیکل 175(2) کے ساتھ مل کر پڑھیں گے یا نہیں۔ جسٹس منیب اختر نے کہا کہ جب مرضی ہوگی قانون بنائیں گے کیا یہ آپ کی دلیل ہے۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیے کہ کیا یہ کوئی طریقہ کار کا معاملہ ہے یا خاص؟
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ زاہد صاحب برائے مہربانی اپنے دلائل تو بتائیں پہلے، اگر پارلیمان کل (3) 184 کو واپس لے لے یا تو کہیں پارلیمان کر ہی نہیں سکتی۔
جسٹس یحییٰ آفریدی نے کہا کہ آپ آرٹیکل 191 سے اینٹری 55 کا تعلق سمجھا دیں۔
جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیے کہ سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کے ذریعے آئین میں بلاواسطہ ترمیم کی گئی، کیا آئین پارلیمنٹ کو ایسی قانون سازی کی اجازت دیتا ہے، جس طرح آپ اس کو اینٹری 58 سے لنک کر رہے ہیں تو پھر آرٹیکل 191 کے تحت قانون سازی کا اختیار بہت وسیع ہونا چاہیے، آپ 1956 کا آئین پڑھیں۔
جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ قانون سازی کے اختیار کے تحت آرٹیکل 191 کہتا ہے کہ سپریم کورٹ رولز قانون سے بدلے جا سکتے ہیں۔
چیف جسٹس نے وکیل زاہد ابراہیم سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ ضروری نہیں کہ آپ سب کے دلائل سے متفق ہوں۔ جسٹس منیب اختر نے کہا کہ بینچ میں بیٹھے جج کو حق حاصل ہے کہ وہ سوال کرے۔
جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ پارلیمنٹ کو موجودہ قانون کا دائرہ بڑھانے کا اختیار ہے، اپیل کا حق دے کر قانون کا دائرہ بڑھایا کیسے گیا؟ قانون سازی کے ذریعے سپریم کورٹ کے دائرہ اختیار میں کچھ شامل کیسے کیا جا سکتا ہے؟
جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ دائرہ اختیار کو بڑھانے کو آرٹیکل 175 شق 4 کے ساتھ ملا کر پڑھا جا سکتا ہے یا نہیں؟ جسٹس منیب اختر نے کہا کہ بار بار آپ کہہ رہے ہیں سپریم کورٹ کے پاس شروع سے رولز سے متعلق قانون سازی کا اختیار تھا۔
وکیل زاہد ابراہیم نے کہا کہ درخواست گزاروں سے سوال کیا گیا ہے کون سا بنیادی حق اس ایکٹ سے متاثر ہوا ہے۔
جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیے کہ کوشش کی گئی ہے کہ سپریم کورٹ کے کام کے طریقہ کار کو ریگولیٹ کیا جائے، عدلیہ کی مائیکرو مینجمنٹ مداخلت نہیں تو پھر کیا مداخلت ہوگی۔
جسٹس شاہد وحید نے استفسار کیا کہ کیا دائرہ اختیار کو ایکٹ آف پارلیمنٹ سے بڑھایا جا سکتا ہے یا اس کے لیے آئینی ترمیم درکار ہے؟ کیا آئین کی دیگر شقوں کو آئینی ترمیم کے بغیر بدلا جا سکتا ہے؟ جس طریقہ کار سے آئین میں ترمیم ہو سکتی ہے اسی طرح کریں۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ اس عدالت سے یہ پیغام نہیں جانا چاہیے کہ قوانین کا انحصار چیف جسٹس کی خواہشات پر ہے، ایسا تاثر اور پیغام جانا تباہ کن ہوگا، میں آئین کا ملازم ہوں اور اللہ کو جوابدہ ہوں۔
جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیے کہ اس قانون کے بعد ماسٹر آف روسٹر کون ہے۔ وکیل زاہد ابراہیم نے کہا کہ کمیٹی فیصلہ کرے گی، جس پر جسٹس منیب اختر کمیٹی پارلیمان ماسٹر آف روسٹر ہوگی، نکتہ یہ ہے کہ موجودہ سمیت کسی بھی صورتحال میں پارلیمان ماسٹر آف روسٹر بن جائے گی۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ کیا ماسٹر آف روسٹر کا لفظ ہے، رولز میں چیف جسٹس کے بینچ مقرر کرنے کا ہے اور مقدمات کو مقرر کرنے کے لیے چیف جسٹس کے پاس رجسڑار کا اختیار ہے، ماسٹر آف روسٹر کا لفظ کس قانون میں ہے۔
جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ دنیا میں اب کہیں بھی ماسٹرز نہیں، اگر ایک شخص کے پاس بینچز کی تشکیل کا اختیار ہے تو اس سے کیس کا نتیجہ متاثر ہوسکتا ہے۔ جسٹس منیب اختر نے کہا کہ اگر ایک شخص نتائج پر اثر انداز ہو سکتا ہے تو تین بھی ہو سکتے ہیں۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ جو قانون ہے اور آئین ہے وہ چیف جسٹس کی خواہشات پر نہیں، یہ عدلیہ کیا آزادی اور قانون کے منافی ہے، میں ماسٹر نہیں آئین کے ماتحت ہوں۔
مسلم لیگ ق کے وکیل زاہد ابراہیم کے دلائل مکمل ہونے کے بعد مسلم لیگ ن کے وکیل صلاح الدین نے دلائل شروع کیے۔
مسلم لیگ ن کے وکیل صلاح الدین کے دلائل
وکیل صلاح الدین کی جانب سے جسٹس ر آصف سعید کھوسہ کے آرٹیکل کا حوالہ دیا گیا۔ انہوں نے کہا کہ موجودہ بینچ کے 10 ممبران بھی چیف جسٹس کے اختیارات پر آواز اٹھا چکے ہیں۔
جسٹس منیب اختر نے استفسار کیا کہ کیا اس کا یہ مطلب ہے پارلیمنٹ کو اختیار مل گیا؟ کیا پارلیمنٹ ماسٹر آف روسٹر ہے اس نکتے پر آئیں، کس کی کیا رائے ہے وہ الگ بات ہے۔ جسٹس مظاہر نے کہا کہ صلاح الدین آپ اس نکتے پر آئیں جو ہمارے سامنے ہے۔ آپ جو دلائل دے رہے ہیں وہ کیا شخصیات کی حد تک ہیں؟
وکیل صلاح الدین نے بتایا کہ چیف جسٹس کے اختیارات کے حوالے سے سپریم کورٹ کے ججز کے حوالے سے بہت آراء آئی ہیں۔
جسٹس مظاہر علی اکبر نے کہا کہ آپ اپنے دلائل شخصیت کو مدنظر رکھ کر دے رہے ہیں۔ جسٹس منیب اختر نے کہا کہ جو آراء دی گئی وہ ان کی آراء ہوں گی، کسی کا ایک موقف ہوتا ہے دوسرے کا دوسرا موقف، بہتر ہوگا کہ پارلیمان کے اختیار پر دلائل دیں۔
چیف جسٹس نے کہا کہ میں آپ کو سننا چاہتا ہوں اپنے دلائل دیں۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ کیس میں پارلیمان کے اختیار اور ایکٹ کے آئین سے متصادم ہونا یا نہ ہونا ہے۔
وکیل صلاح الدین نے کہا کہ بینچز کی تشکیل اور مقدمات کا مقرر کرنا آئینی اختیار نہیں، بینچ تشکیل کرنے کی پاور کوئی آئینی پاور نہیں ہے۔
جسٹس منیب اختر نے استفسار کیا کہ آپ نے 1861 کا انڈیا ایکٹ دیکھا؟ بیرسٹر صلاح الدین نے جواب دیا کہ نو سر۔ جسٹس منیب اختر نے کہا کہ میں آپ کو بتاتا ہوں اس پاور کا آغاز وہیں سے ہوتا ہے، برطانوی راج کا آغاز ہونے کے بعد 1861 میں پہلا قانون بنایا گیا، آئینی تاریخ دیکھیں تو ماسٹر آف روسٹر کے معاملے میں مداخلت پر واٹر مارک ہے۔
بیرسٹر صلاح الدین نے کہا کہ احترام کے ساتھ آئینی تاریخ پر میں الگ موقف لوں گا، 1962 کے بعد چیف جسٹس کے اختیارات کو کم اور سپریم کورٹ کا اختیار بڑھانے کا آغاز ہوا، اگر آئین سازوں نے ایک اختیار ختم کیا تو اسے نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔
جسٹس منیب اختر نے کہا کہ سوال ہے کہ ماسٹر آف روسٹر کون ہوگا۔
جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ دنیا بھر میں ماسٹرز کا دور ختم ہو چکا اور اب ہمیں جاگ جانا چاہیے۔ امریکا، برازیل سمیت کئی ممالک میں عدلیہ باہمی مشاورت سے اپنے امور چلاتی ہے۔
جسٹس منیب اختر نے کہا کہ یہاں ماسٹرز آتے ہیں اور چلے جاتے ہیں، کوئی بھی صدا ماسٹر نہیں رہتا۔
چیف جسٹس پاکستان نے ریمارکس دیے کہ آئندہ سال اکتوبر میں ایک اور چیف جسٹس نے چلے جانا ہے، سوال یہ ہے کہ جن لوگوں کا نقصان ہوا ہم انہیں کیا جواب دیں گے، آئین اور قانون چیف جسٹس پاکستان کی خواہشات کے تابع نہیں ہیں، اگر ایسا ہوا تو یہ آئین کی بالادستی اور قانون کی حکمرانی کے لیے تباہ کن ہوگا، ہم ماسٹرز نہیں بلکہ آئین اور عوام کے نوکر ہیں، چیف جسٹس پاکستان کو آئین و قانون سے آگے نہیں بڑھنا چاہیے۔
وکیل ن لیگ صلاح الدین نے کہا کہ متعدد چیف جسٹس اور ججز آرٹیکل 184 کی شق تین کے استعمال پر تحفظات کا اظہار کر چکے ہیں۔
جسٹس منیب اختر نے کہا کہ کیا اس بنیاد پر پارلیمنٹ کو قانون سازی کا اختیار دیا جاسکتا ہے۔
وکیل ن لیگ نے کہا کہ پاکستان بار کونسل 10 سال سے چیف جسٹس پاکستان کے اختیارات ریگولیٹ کرنے کا مطالبہ کر رہی ہے، بینچ بنانے اور مقدمات سماعت کے لیے مقرر کا اختیار چیف جسٹس کو حاصل ہونا آئین میں نہیں لکھا، ساٹھ کی دہائی سے چیف جسٹس کے ماسٹر آف روسٹر کے اختیار کو کم کرکے سپریم کورٹ کے اختیارات کو بڑھایا جاتا رہا۔ جنوری 2018 میں بھارتی سپریم کورٹ کے چار ججز نے اپنے ہی چیف جسٹس کے خلاف پریس کانفرنس کی۔
چیف جسٹس پاکستان نے ریمارکس دیے کہ ہم 1947میں آزاد ہو چکے ہیں، دیکھتے ہیں بھارتی سپریم کورٹ مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت کرنے کے خلاف کیس پر کیا فیصلہ دیتی ہے۔
جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیے کہ یہ ایکٹ سپریم کورٹ کو ڈکٹیشن دے رہا ہے، ایکٹ کہتا ہے اتنے رکنی کمیٹی ہو اتنا رکنی بینچ بنائے، سپریم کورٹ کو ڈکٹیٹ کرنا کہ بزنس کیسے چلاو یہ عدلیہ میں مداخلت نہیں تو کیا ہے؟
جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس میں کہا کہ کیا پارلیمنٹ قانون سازی کی مجاز ہے یا نہیں؟ اگر پارلیمنٹ مجاز ہے تو پھر اسے ڈکٹیشن نہ کہیں۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ایکٹ کے ذریعے چیف جسٹس کے ساتھ دو کو پائلٹ ہی لگائے گئے، ہم اپنے سائے اور کو پائلٹس سے گھبراتے کیوں ہیں؟ سوال یہی ہے پارلیمنٹ اس قانون سازی کی مجاز ہے یا نہیں، بینچوں سے متعلق جو شکایات اور مسائل سپریم کورٹ میں ہیں وہ ہائیکورٹس میں نہیں دیکھے، کیا یہ کہا جائے ہائیکورٹس سپریم کورٹ سے بہتر چل رہی ہیں۔
بیرسٹر صلاح الدین نے دلائل میں کہا کہ یہ ہائیکورٹ ٹو ہائیکورٹ اور چیف جسٹس ٹو چیف جسٹس دیکھا جا سکتا ہے۔ چیف جسٹس نے ریمارکس میں کہا کہ یہ نہیں کہا جا سکتا پارلیمنٹ نے بدنیتی سے یہ کر دیا آوازیں تو وکلا اٹھا رہے تھے۔
جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیے کہ اگر سابق چیف جسٹس صاحبان کے خلاف باتیں یہاں اٹھائی جائیں مجھے شدید تحفظات ہیں، جو یہاں اپنا دفاع کرنے کے لیے موجود نہیں ان کا معاملہ نہ اٹھایا جائے۔
جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ آپ پہلے پارلیمنٹ کے اختیار قانون سازی پر بات کریں، جس پر بیرسٹر صلاح الدین نے جواب دیا کہ آرٹیکل 191 قانون سازی کو قبول کرتا ہے۔
چیف جسٹس پاکستان نے ن لیگ کے وکیل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ پہلے لوگ دوسروں کے دلائل اپنایا کرتے تھے لیکن اب ویسا نہیں ہو رہا۔ بیرسٹر صلاح الدین نے کہا کہ براہ راست کارروائی نشر ہو رہی ہے اس لیے ایسا نہیں ہو رہا۔ چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ کیوں نہ عدالتی کارروائی کی براہ راست نشریات دکھانا روک دیں۔
جسٹس منیب اختر نے کہا کہ مجھے قانون سازی پر بہت زیادہ تحفظات ہیں، پارلیمنٹ کو ماسٹر آف دی روسٹر بنانا عدلیہ کی خودمختاری کے خلاف ہے، جس پر وکیل ن لیگ نے کہا کہ پارلیمنٹ کی قانون سازی سے عدلیہ کی خودمختاری کو مزید تقویت ملی ہے۔
کیس کی سماعت 20 منٹ وقفے کے بعد دوبارہ شروع
سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کے خلاف سماعت وقفے کے بعد دوبارہ شروع ہوگئی۔ جسٹس منیب نے کہا کہ سپریم کورٹ کو پارلیمنٹ تک محدود کر دیا گیا ہے۔ جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ کچھ لوگ پارلے منٹ کا ذکر بھی ہتک آمیز طریقے سے کرتے ہیں، پارلیمنٹ پاکستان کے عوام کی نمائندہ ہے، کیا عوام نہیں کہہ سکتے کورٹ کیسے چلے وہ تو اصل ٹرسٹی ہیں۔
بیرسٹر صلاح الدین نے کہا کہ یہ نہیں کہا جاسکتا کہ اس ایکٹ کو ماننے سے غلط قانون سازی کا راستہ کھلے گا، کل اگر کوئی خلاف آئین قانون بنا تو عدالت کالعدم کر سکتی ہے، پارلیمنٹ کا اختیار ہونا نہ ہونا اور قانون سازی کی آئین سے مطابقت الگ چیزیں ہیں، عدلیہ کی آزادی سپریم کورٹ اور ضلعی عدالتوں کیلئے ایک سی ہے۔
جسٹس منیب اختر نے کہا کہ ماتحت عدلیہ سے متعلق قانون سازی کا واضح اختیار دیا گیا ہے اس پر صلاح الدین نے کہا کہ میں عدلیہ کی آزادی کی بات کر رہا ہوں۔
جسٹس شاہد وحید نے کہا کہ کیا دنیا میں کوئی ایسی مثال ہے جس میں پروسیجرل قانون میں رول بنانے کی پاور دی گئی ہو؟ اس پر بیرسٹر صلاح الدین نے کہا کہ ماسٹر آف روسٹر پارلیمنٹ نہیں ہے۔
جسٹس منیب اختر نے کہا کہ قانون بنانے کا اختیار اگر وفاقی حکومت کو ہے تو پھر ماسٹر آف روسٹر تو وہی ہیں، کل کو پارلیمنٹ اختیارات کو کسی اور طرح بھی بدل سکتی ہے۔
چیف جسٹس فائز عیسیٰ نے کہا کہ ہائی کورٹ کے فیصلے کے یخلاف سپریم کورٹ میں اپیل کا حق موجود ہے لیکن اس کے باوجود ہائیکورٹ کے اندر ہی انٹراکورٹ اپیل کا حق دیا گیا ہے، صلاح الدین آج آپ آخری وکیل ہیں، باقی وکلا کو کل دن ساڑھے گیارہ بجے سنا جائے گا۔
اس دوران جسٹس عائشہ ملک نے کہا کہ آپ نے جو مثالیں پیش کیں وہ الگ نوعیت کی ہیں، کسی اور عدالت کے خلاف سپریم کورٹ میں اپیل کا حق دینا الگ بات ہے، سپریم کورٹ کے اپنے آرڈر کے خلاف اپیل کا حق دینا الگ معاملہ ہے، آئین میں ترمیم سادہ قانون سازی سے کیسے کی جا سکتی ہے؟
جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ جن کیسز میں نظرثانی ہوچکی کیا انہیں بھی اپیل کا حق ملے گا؟ بیرسٹر صلاح الدین نے کہا کہ قانون بننے سے 30 دن پہلے تک کے جو فیصلے ہیں صرف ان پر اپیل کا حق ملے گا، جسٹس اطہر نے کہا کہ آرٹیکل 184/3 کے تحت دائرہ کار قانون سازی سے کیسے بڑھ سکتا ہے یہ بتائیں۔ بیرسٹر صلاح الدین نے کہا کہ ایک نکتے پر آئین کی دو تشریحات موجود ہوں تو جو تشریح اسلام کے قریب ہو اسے فوقیت ملے گی۔
جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ آٹھ رکنی سے زیادہ بنچ بنا تو اپیل کا حق پھر بھی نہیں مل سکے گا، سات رکنی یا کم بنچ بنا تو ہی اپیل کاحق ملا کرے گا، یہ طے کرنے کا پیمانہ کیا ہو گا کس کیس میں اپیل کا حق رکھنا ہے؟
چیف جسٹس فائز عیسیٰ نے کہا کہ اس کا سادہ جواب ہے کمیٹی 184/3 میں آٹھ رکنی یا بڑا بنچ نہیں بنائے گی۔ اس پر بیرسٹر صلاح الدین نے کہا کہ ایک کیس فل کورٹ سن لے گی تو اپیل کی ضرورت نہیں بچے گی، سارے ججوں کو سن لینے کے بعد اپیل کی ضرورت نہیں رہتی۔
جسٹس عائشہ ملک نے سوال کیا کہ سارے ججوں نے کیس سن لیا تو اس بنیاد پر کیا اپیل کا قانونی حق ختم کر دیں؟
بعدازاں چیف جسٹس نے آج کا حکم نامہ لکھوانا شروع کر دیا جس میں لکھا کہ عابد زبیری نے ایکٹ کی مخالفت میں دلائل مکمل کیے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ اہم سیاسی جماعت پیپلز پارٹی کی نمائندگی ہی موجود نہیں چلیں خیر کسی کو فورس نہیں کرسکتے۔
بعدازاں ن لیگ کے وکیل بیرسٹر صلاح الدین کے دلائل مکمل ہوگئے، جماعت اسلامی اور جے یو آئی ف کے وکلا نے پریکٹس اینڈ پروسیجر قانون کے حق میں دیے گئے دلائل اپنا لیے۔
عدالت نے کہا کہ کل اٹارنی جنرل، پاکستان بار کونسل اور ایم کیو ایم کے وکلاء کو سنیں گے، وکلاء کوشش کریں اپنے دلائل مختصر رکھیں۔
سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کے خلاف کیس کی سماعت کل صبح ساڑھے گیارہ بجے تک ملتوی کردی گئی، کل ایم کیو ایم کے وکیل فیصل صدیقی دلائل دیں گے۔