قومی سلامتی کیخلاف سازش ہو تو یہ نہیں کہا جاسکتا کہ فوج ٹرائل نہیں کرسکتی، چیف جسٹس

اسلام آباد: سپریم کورٹ کا سات رکنی لارجز بینچ فوجی عدالتوں میں سویلین کے ٹرائل کے خلاف دائر درخواستوں پر سماعت کر رہا ہے، جسٹس قاضی فائز اور جسٹس سردار طارق مسعود کے اعتراض کے بعد 9 رکنی لارجر بینچ گزشتہ روز ٹوٹ گیا تھا۔

چیف جسٹس پاکستان عمر عطا بندیال کی سربراہی میں سات رکنی لارجر بینچ میں جسٹس اعجاز الاحسن، منصور علی شاہ، جسٹس منیب اختر بینچ، جسٹس یحییٰ آفریدی، جسٹس مظاہر نقوی اور جسٹس عائشہ ملک شامل ہیں۔

سماعت شروع ہوئی تو سول سوسائٹی کے وکیل فیصل صدیقی روسٹرم پر آئے اور تحریری دلائل بھی جمع کروا دیے۔

وکیل فیصل صدیقی نے دلائل میں کہا کہ میری درخواست باقی درخواستوں سے کچھ الگ ہے، میں اس پر دلائل نہیں دوں گا کہ سویلین کا ٹرائل آفیشل سیکریٹ ایکٹ کے تحت ملٹری کورٹس میں نہیں ہو سکتا اور یہ بھی نہیں کہتا کہ ملٹری کورٹس کے ذریعے ٹرائل سرے سے غیر قانونی ہے جبکہ میں یہ بھی نہیں کہوں گا کہ 9 مئی کو کیا ہوا کیا نہیں۔

سول سوسائٹی کے وکیل نے کہا کہ سویلین کے ٹرائل کی ماضی میں مثالیں ہیں، فوجی عدالتوں میں فوج داری ضابطے کے تحت کارروائی نہیں ہو سکتی اس لیے اس کو چیلنج نہیں کیا اور میں نے کسی ملزم کی بریت کو چیلنج نہیں کیا، ملزمان کو فوج کے حوالے کرنے کے عمل میں مخصوص افراد کو چنا گیا۔

انہوں نے دلائل میں کہا کہ آرمی ایکٹ قانون کو بدنیتی کے تحت استعمال کیا جاتا ہے، عدالت میں جا کر کہا گیا 15 لوگوں کو حوالے کر دیں، جن افراد کا انسداد دہشت گردی عدالت میں ٹرائل ہوگا ان کو اپیل کا حق ملے گا لیکن جن کا ٹرائل ملٹری کورٹس میں ہوگا انہیں اپیل کا حق حاصل نہیں۔

فیصل صدیقی کی جانب سے لیاقت حسین، سعید زمان اور ڈسٹرکٹ بار ایسوسی ایشن کے کیسز کا حوالہ دیا گیا۔

جسٹس عائشہ ملک نے ریمارکس دیے کہ کون سے ایسے مخصوص حالات ہیں جن میں ملٹری کورٹس میں ٹرائل ہو سکتا ہے۔ فیصل صدیقی نے بتایا کہ عدالتی فیصلے یہ کہتے ہیں کہ واضح تفریق ہونی چاہیے اور ہم نہیں کہتے کہ لوگوں کا سخت ٹرائل نہ ہو، انسدادِ دہشت گردی عدالت سے زیادہ سخت ٹرائل کہاں ہو سکتا ہے۔

جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیے کہ نیشنل سیکیورٹی کے باعث کہا گیا کہ یہ ٹرائل ملٹری کورٹس میں ہوا، اسٹیٹ سیکیورٹی کی حدود میں جائیں گے تو پھر ٹرائل فوجی عدالتوں میں ہونے کا ذکر ہے۔ جسٹس مظاہر اکبر نقوری نے استفسار کیا کہ آفیشل سیکریٹ ایکٹ کو کب شامل کیا گیا؟

فیصل صدیقی نے کہا کہ اکیسویں ترمیم کیس کا حوالہ جسٹس یحیحی آفریدی نے دیا تھا، اکیسویں ترمیم کے نتیجے میں بننے والی فوجی عدالتوں کے فیصلے اعلی عدلیہ میں چیلنج ہوئے تھے۔

جسٹس عائشہ ملک نے استفسار کیا کہ سویلینز کا کن حالات میں فوجی عدالتوں میں ٹرائل ہوسکتا ہے؟ فیصل صدیقی نے کہا کہ اکیسویں ترمیم کیس میں عدالت نے کہا تھا ٹرائل کے لیے آرمی ایکٹ کے ساتھ تعلق ہونا لازمی ہے، کوئی نہیں کہتا 9 مئی کے ملزمان کا سخت ٹرائل نہ ہو۔

جسٹس یحیی آفریدی نے ریمارکس دیے کہ آپ نہیں سمجھتے کہ پہلے اٹارنی جنرل سے پوچھا جائے کہ مقدمات کیسے بنے، جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ آپ دلائل جاری رکھیں وکلاء کے بعد اٹارنی جنرل کو سنیں گے، ہو سکتا ہے اٹارنی جنرل کل مانگی گئی تفصیلات پر آج بیان ہی دیں۔

فیصل صدیقی نے کہا کہ کب عدالت نے پوچھا تھا کہ یہ درخواستیں پہلے ہائیکورٹ میں نہیں جانی چاہیے تھیں، ایک سے زیادہ صوبوں کا معاملہ ہے ایک ہائیکورٹ کا دائرہ اختیار نہیں بن سکتا، یہ درخواستیں سپریم کورٹ میں ہی قابلِ سماعت ہیں۔

جسٹس عائشہ ملک نے ریمارکس دیے کہ کیا درخواستیں قابلِ سماعت ہونے کی حد تک آپ کے دلائل مکمل ہیں۔ فیصل صدیقی نے کہا کہ جی درخواستوں کے قابل سماعت ہونے تک دلائل مکمل ہیں اب آگے چلتے ہیں۔ جسٹس عائشہ ملک نے ریمارکس دیے کہ ہوسکتا ہے جن لوگوں کو ملٹری کورٹس کے حوالے کیا گیا ان پر الزامات کی نوعیت الگ ہو، آپ صرف مفروضوں پر کہہ رہے ہیں کہ ان لوگوں کے خلاف کوئی شواہد موجود نہیں۔

جسٹس یحییٰ آفریدی نے ریمارکس دیے کہ آپ عمومی بحث پر جا رہے ہیں یہ بھی علم نہیں ان لوگوں کو کس کس شق کے تحت ملٹری کورٹس بھیجا گیا۔ وکیل فیصل صدیقی نے کہا کہ فرض کریں ان کے خلاف شواہد بھی موجود ہیں تو دکھاوں گا کہ انہیں کیسے ملٹری کورٹس نہیں بھجا جا سکتا ہے۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ اپنے دلائل کے متعلقہ نکات تک محدود رکھیں، آج کا دن درخواست گزاروں کے لیے مختص ہے بے شک تین بجے تک دلائل دیں۔

جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیے کہ قانون یہ نہیں کہہ رہا ہے کہ ملٹری کے اندر کام کرنے والا بندہ ہو تو ہی آفیشل سیکریٹ ایکٹ لگے گا، ملٹری حدود کے اندر ہونے کے جرم سے تعلق پر بھی ایکٹ لاگو ہوتا ہے، آپ بتائیں ملٹری کورٹس میں کسی کو ملزم ٹھہرانے کا کیا طریقہ ہے، آفیشل سیکریٹ ایکٹ کا اطلاق ممنوعہ علاقوں، عمارات اور کچھ سول عمارات پر بھی ہے۔

جسٹس مظاہر نقوی نے ریمارکس دیے کہ آپ ابھی تک بنیادی پوائٹ ہی نہیں بنا سکے، آفیشل سیکریٹ ایکٹ کی دفعات ایف آئی آرز میں کب شامل کی گئیں اور اگر ایف آئی آر میں آفیشل سیکریٹ ایکٹ کی دفعات ہی شامل نہیں تو کیا کمانڈنگ آفیسر ملزمان کی حوالگی مانگ سکتا ہے؟

جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیے کہ آپ سے دو سوال پوچھ رہے ہیں اس پر آئیں، آپ پراسس بتائیں آرمی ایکٹ کا اطلاق کیسے ہوگا، آرمی کے اندر اس فیصلے تک کیسے پہنچا جاتا ہے کہ فلاں بندہ آرمی ایکٹ کے تحت ہمارا ملزم ہے۔ کیا ہمیں مکمل تفصیلات حاصل ہیں کہ آفیشل سیکریٹ ایکٹ کے تحت فوج کیسے کسی کو ملزم قرار دیتی ہے۔

جسٹس عائشہ ملک نے ریماریس دیے کہ ہم تو کہہ رہے ہیں ہمارے سامنے کوئی ریکارڈ ہی نہیں ہے، جس پر فیصل صدیقی نے کہا کہ حقائق سامنے نا بھی ہوں تو بھی یہ کیس بادی النظر کا بنتا ہے۔ جسٹس عائشہ ملک نے ریمارکس دیے کہ آفیشل سیکریٹ ایکٹ کے اطلاق کے لیے اندرونی تعلق کا ذکر ہے۔

جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیے کہ فوج کیسے یہ طے کرتی ہے کہ فلاں شخص کو ملزم بنا کر اس کے خلاف فوجی ٹرائل کرنا ہے۔ جسٹس یحییٰ آفریدی نے ریمارکس دیے کہ ضابطہ فوجداری میں کسی شخص کو ملزم بنانے کا طریقہ کار ہے لیکن یہ طریقہ کار آرمی ایکٹ میں کہاں لکھا ہوا ہے۔

جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیے کہ فوج کے قوانین فوج کے لیے ہی ڈیزائن کیے جاتے ہیں۔ جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیے کہ فوج کو جب کوئی شخص مطلوب ہو تو وہ کس طریقے کار کے تحت لیتی ہے۔

فیصل صدیقی نے کہا کہ آرمی ایکٹ میں شکایت یا ایف آئی آر کا کوئی طریقہ کار نہیں۔

جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیے کہ ایک کمانڈنگ افسر مجسٹریٹ کے پاس جاتا ہے تو کس بنیاد پر جا کر بندہ مانگتا ہے؟ مجسٹریٹ کے پاس آنے سے پہلے کمانڈنگ افسر گھر میں کیا تیاری کرتا ہے۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ملزمان کے ریمانڈ میں بنیادی چیز مسنگ ہے، ریمانڈ آرڈر میں ذکر نہیں ملزمان کی حوالگی کیسے اور کن شوائد پر ہوئی۔

جسٹس اعجاز الاحسن نے استفسار کیا کہ آفیشل سیکریٹ ایکٹ میں شکایت کو ایف آئی آر کے طور پر لیا جاتا ہے؟ فیصل صدیقی نے کہا کہ آفیشل سیکریٹ ایکٹ کا اطلاق تو پھر سول عمارات پر بھی ہے، جس پر جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیے کہ وہ زیادہ پیچیدہ ہو جائے گا آپ ان مقدمات میں پراسس کا بتائیں۔

پندرہ منٹ وقفے کے بعد سماعت دوبارہ شروع
وقفے کے بعد سماعت دوبارہ شروع ہوئی تو سول سوسائٹی کے وکیل فیصل صدیقی نے کہا کہ آرمی ایکٹ میں ٹرائل کیسے شروع ہوتا ہے، اس کا جواب آرمی رولز 1954 میں موجود ہے اور رول 157 کی سب سیکشن 13 میں طریقہ کار درج ہے، یہاں 9 اور 10 مئی کو واقعات ہوتے ہیں اور 25 مئی کو حوالگی مانگ لی جاتی ہے، یہاں تو ہمیں حقائق میں جانے کی ضرورت بھی نہیں اور ملزمان کی حوالگی مانگنے کی کوئی وجہ موجود نہیں ہے۔

جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیے کہ چارج سے پہلے انکوائری کا ہم اٹارنی جنرل سے پوچھیں گے، آپ یہ کہنا چاہ رہے ہیں کہ ان ملزمان کے خلاف باظاہر کوئی الزام نہیں۔

فیصل صدیقی نے کہا کہ میں یہ کہہ رہا ہوں چارج کرنے سے پہلے سخت انکوائری ہونی چاہیے، 9 مئی کے ملزمان سے متعلق سخت انکوائری پہلے ہونی چاہیے، تاریخ میں کبھی 1998 کے علاوہ سویلین حکومت نے سویلین کا ملٹری ٹرائل نہیں کیا، 9مئی کے ملزمان سے متعلق دوسری عدالتوں میں ٹرائل کا قانونی آپشن موجود ہے، اگر کیس کسی آرمی آفیشل پر ہوتا تو بات اور تھی اب کورٹ مارشل کے علاوہ آپشن نہیں، آئینی ترمیم میں بھی سویلین کے علاوہ ملٹری کورٹس میں ٹرائل پر شرط رکھی گئی۔

جسٹس منصور علی شاہ نے استفسار کیا کہ کیا کبھی ایسا ہوا کہ آفیشل سکریٹ ایکٹ کے تحت ٹرائل صرف مجسٹریٹ نے کیا ہو؟ فیصل صدیقی نے بتایا کہ جی میں اس حوالے سے فیصلوں کی نظریں پیش کروں گا۔

سول سوسائٹی کے وکیل فیصل صدیقی کے دلائل مکمل ہونے کے بعد سابق چیف جسٹس جواد ایس خواجہ کے وکیل احمد حسین کے دلائل شروع ہوگئے۔

وکیل احمد حسین کے دلائل
وکیل احمد حسین نے کہا کہ سوال یہ ہے کیا سویلین جن کا فوج سے تعلق نہیں ان کا ملٹری کورٹ میں ٹرائل ہو سکتا ہے؟ میرا موقف ہے کہ موجودہ حالات میں سویلین کا ملٹری کورٹ میں ٹرائل نہیں ہو سکتا، ہمارا اعتراض یہ بھی نہیں کہ لوگوں کے خلاف کارروائی نہ ہو، ہمارا نقطہ فورم کا ہے کہ کارروائی کا فورم ملٹری کورٹس نہیں۔

وکیل احمد حسین نے دلائل میں کہا کہ سوال یہ ہے سویلین کے کورٹ مارشل کی آرمی ایکٹ میں گنجائش کیا ہے؟ آرمی ایکٹ کا کل مقصد یہ ہے کہ آرمڈ فوسز میں ڈسپلن رکھا جائے، جن افراد کو مسلح افواج کی کسی کمپنی وغیرہ میں بھرتی کیا گیا ہو ان پر ہی اس ایکٹ کا اطلاق ہوگا۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ آپ کے مطابق آئین کے کون سے بنیادی حقوق ملٹری کورٹس میں ٹرائل سے متاثر ہوں گے۔

وکیل احمد حسین نے کہا کہ آرٹیکل 10، 9 اور 25 میں دیے گئے حقوق متاثر ہوں گے، 21 ویں آئینی ترمیم کا فیصلہ اسی 7 رکنی بینچ کو آرمی ایکٹ کی سیکشن 2 ڈی ون کو کلعدم کرنے سے نہیں روکتا، اگر عدالت سمجھتی ہے 21 ویں ترمیم کے بعد اس کے ہاتھ بندھیں ہیں تو فل کورٹ ہی بنا لیں۔

جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیے کہ میں تو اسی میں کمفرٹیبل ہوں گا اگر اتنا ہی بینچ بیٹھے جتنے رکنی بینچ نے 21 ویں ترمیم کا فیصلہ دیا تھا۔

جسٹس اعجاز الحسن نے ریمارکس دیے کہ اکیسویں آئینی ترمیم کیس میں عدالت نے کہا تھا فوجی عدالتیں مخصوص حالات کے لیے ہیں، اس فیصلے میں جنگی حالات جیسے الفاظ استعمال کیے گئے۔

وکیل احمد حسین نے کہا کہ میرے علم میں نہیں کہ موجودہ حکومت کا موقف ہو کہ آج کل جنگی حالات ہیں۔

نماز جمعہ کے بعد کیس کی سماعت

وکیل احمد حسین نے کہا کہ فیئر ٹرائل ہر ایک کا بنیادی حق ہے جس سے محروم نہیں کیا جا سکتا، کورٹ مارشل کارروائی کے فیصلے آسانی سے میسر بھی نہیں ہوتے۔

جسٹس منصور علی شاہ نے استفسار کیا کہ کورٹ مارشل کارروائی کرتا کون ہے؟ وکیل احمد حسین نے کہا کہ ایک پینل ہوتا ہے جو کارروائی کنڈکٹ کرتا ہے اور ملٹری کورٹ فیصلے میں صرف اتنا لکھتی ہے کہ قصور وار ہے یا نہیں، اب فیصلے میں وجوہات کا ذکر ہوتا ہے یا نہیں اٹارنی جنرل بتا سکتے ہیں۔ ملٹری کورٹس میں اپیل کا تصور بھی آرمی افسران کے پاس ہی ہے، آرمی چیف ہی سارے پراسس میں فائنل اتھارٹی ہے اور کلبھوشن یادو کے لیے اپیل کا خصوصی قانون بنایا گیا۔

خواجہ احمد حسین نے کہا کہ فوجی ٹرائل چلانے والے بھی فوجی ہوتے ہیں، فوجی ٹرائل خفیہ ہوتا ہے اور اس کا ریکارڈ بھی خفیہ رکھا جاتا ہے جبکہ فوجی ٹرائل کے بعد فیصلے میں کوئی تفصیل بھی نہیں دی جاتی، فوجی ٹرائل کے فیصلے کے خلاف اپیل نہیں ہوتی اور اپیل صرف چیف آف آرمی اسٹاف کے پاس جاتی ہے۔

سابق چیف جسٹس جواد ایس خواجہ کے وکیل کی جانب سے کلبھوشن یادیو کیس کا حوالہ دیا گیا۔ انہوں نے دلائل میں کہا کہ عالمی عدالت انصاف کے فیصلے کی روشنی میں حکومت نے بھارتی جاسوس کلبھوشن یادیو کے لیے خصوصی قانون بنایا، بھارتی جاسوس کلبھوشن یادیو کو بھی وکیل اور اپیل کا حق دیا گیا تھا، اس مثال سے یہ واضح ہوتا ہے کہ فوجی عدالت کے ٹرائل کے خلاف اپیل کا حق نہیں ہوتا۔

جسٹس منصور علی شاہ نے استفسار کیا کہ کیا بین الاقوامی قانون میں بھی سویلین کا فوجی عدالت میں ٹرائل ہوتا ہے، جس پر خواجہ احمد حسین نے کہا کہ کچھ ممالک میں ایسی موجود ہیں کچھ میں نہیں ہیں۔ آرمی ایکٹ فیئر ٹرائل یا سویلینز کو مدنظر رکھ کر نہیں بنایا گیا۔

جسٹس منصور علی شاہ نے استفسار کیا کہ کیا بین الاقوامی ممالک میں بھی سویلینز کے فوجی عدالتوں میں ٹرائل ہوتے ہیں، جس پر وکیل نے بتایا کہ ہر ملک کا اپنا قانون ہے برطانیہ میں سویلینز کا فوجی ٹرائل ہو سکتا ہے۔ سینیئر کمانڈ کے فیصلوں کے بعد کیا فوجی عدالت میں کوئی افسر فیئر ٹرائل کو فالو کر سکتا ہے؟ احمد حسین نے کہا کہ اپنے مقدمے کے آپ خود جج نہیں بن سکتے۔

چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کن سویلینز کا ٹرائل آرمی ایکٹ کے تحت ہو سکتا ہے؟ جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیے کہ ملٹری افراد کے علاوہ سویلینز کے حقوق کا تحفظ دیا گیا ہے۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ سویلینز میں تو ہر شہری آتا ہے کیا ٹرائل صرف مخصوص افراد کا ہو سکتا ہے۔ جسٹس منصور علی شاہ نے استفسار کیا کہ سویلینز کی تعریف کیا ہوگی کیا ریٹائرڈ آرمی افسران بھی سویلینز میں آئیں گے؟

خواجہ احمد حسین نے کہا کہ اکیسویں آئینی ترمیم میں فوجی عدالتوں کی مخصوص مدت کا تعین کیا گیا تھا، 1975 میں چیف جسٹس حمود الرحمان کی سربراہی میں پانچ رکنی بینچ نے فیصلے میں کہا کہ سویلین کے فوجی عدالتوں میں ٹرائل کی شقوں کو کالعدم قرار دیا جاسکتا ہے، سویلین قوانین کا فائدہ فوجی نہیں حاصل کرسکتے، پارلیمنٹ کو یہ اختیار بھی حاصل ہے کہ محدود تعریف کیساتھ قانون سازی کرسکتی ہے، جسٹس منیب اختر میرے لیے یہ ہضم کرنا مشکل ہے۔

جسٹس یحییٰ آفریدی نے ریمارکس دیے کہ آپ کی اپیل یہ ہے کہ بنیادی حقوق کی خلاف ورزی پر قانون چیلنج کیا جا سکتا ہے، اس کا اصل فورم تو ہائیکورٹ ہے، سپریم کورٹ آرمی ایکٹ کی تمام شقوں کا جائزہ لے سکتی ہے۔

خواجہ احمد حسین نے کہا کہ سپریم کورٹ جائزہ لے کہ کیا سویلین کا ملٹری کورٹ میں ٹرائل ہوسکتا ہے، مجھے تو یہ بھی علم نہیں کیا شواہد ہیں اور کیا الزامات ہیں، حکومت کو جواب دینا چاہیے، عام عدالتیں کیوں انصاف فراہم نہیں کرسکتیں۔ مستقبل میں اگر فوجی عدالت فعال کرنی ہوئیں تو قانون سازی کرلیں۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ نیشنل سیکیورٹی کا معاملہ آرمی براہ راست دیکھتی ہے، اگر کوئی قومی سلامتی کے خلاف سازش کرے تو یہ نہیں کہا جاسکتا کہ فوج ٹرائل نہیں کرسکتی۔

جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیے کہ آرٹیکل 199 تھری کے تحت ہائی کورٹ کے فوجی عدالتوں کے خلاف اختیارات محدود ہیں، ایف بی علی کیس کا فیصلہ 1962 کے آئین کے تحت تھا۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیے کہ عام شہریوں کا تعلق آرمی ایکٹ سے کیسے جوڑیں گے کیسے بنیادی حقوق سے محروم کریں گے۔

وکیل احمد حسین نے دلائل میں کہا کہ میرا بنیادی نقطہ یہ ہے کہ عدالت آرمی ایکٹ کی شقوں کا جائزہ لے سکتی ہے، عدالت نے جائزہ لینا ہے کہ آرمی ایکٹ کے تحت سویلینز کا ٹرائل ہو سکتا ہے یا نہیں، اس کی وضاحت نہیں دی گئی حکومت نے سول عدالتوں پر عدم اعتماد کیوں کیا؟ ملٹری ٹرائل کے نتیجے میں کئی شہریوں کو کورٹ مارشل کا سامنا کرنا پڑے گا۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ملکی سلامتی کے معاملات براہ راست آرمی کے تحت آتے ہیں، کیا طریقہ کار ہوگا جس کے تحت مقدمات ملٹری کورٹ کو بھجوائے جائیں گے۔

خواجہ احمد حسین کے دلائل مکمل ہوگئے جس کے بعد اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان نے دلائل کا آغاز کر دیا۔

اٹارنی جنرل کے دلائل
اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان نے دلائل میں کہا کہ اسلام آباد پولیس کی تحویل میں کوئی شخص نہیں ہے، پشاور میں چار لوگ زیر حراست ہیں، پنجاب میں ایم پی او کے تحت 21لوگ گرفتار ہیں، انسداد دہشتگردی ایکٹ کے تحت 141افراد گرفتار ہیں، سندھ میں 172افراد جوڈیشل تحویل میں ہیں، 345افراد گرفتار اور 70 بری ہوگئے، ایم پی او کے تحت 117 افراد جوڈیشل تحویل میں ہیں اور 102 افراد فوج کی تحویل میں ہیں، فوج کی تحویل میں کوئی خاتون اور کمسن نہیں ہے، کوئی صحافی اور وکیل فوج کی تحویل میں نہیں ہے۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ صحافیوں اور وکلاء کے معاملے پر بعد میں آئیں گے۔ اٹارنی جنرل نے بتایا کہ فوج کی تحویل میں ایک بچہ آیا ہے جس کا ٹیسٹ ہو رہا ہے، ٹیسٹ میں بچے کی عمر 18سال سے کم ہوئی تو اس کو واپس کر دیا جائے گا۔ چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ صحافیوں اور وکلاء کے بارے میں حکومت کی کیا پالیسی ہے، ہم سویلین کے حقوق کے حوالے سے اس معاملے کو دیکھ رہے ہیں۔

اٹارنی جنرل نے بتایا کہ ہمارا پالیسی بیان ہے کہ 18سال سے کم عمر شخص فوج کی تحویل میں نہیں ہوگا۔

چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ اس وقت دو صوبوں میں نگراں حکومت ہے، مہربانی فرما کر اس سے رابطہ کریں۔ صحافیوں اور وکلاء کے بارے میں دونوں صوبائی حکومتوں سے رابطہ کریں، صحافی اور وکلاء ہمارے معاشرے کا اعتماد ہے، دونوں شعبے اہم ہیں، بول کہ لب آزاد ہیں تیرے، بینچ کے کچھ ممبران کو وکلاء اور صحافیوں کے بارے میں تشویش ہے۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ہم نے امن قائم کرنے کے لیے درجہ حرارت کو کم کرنا ہے، دیکھنا ہے کہ امن اور سکون کو کیسے بحال کیا جا سکتا ہے۔

ایڈووکیٹ عزیر بھنڈاری نے کہا کہ میں چیئرمین پی ٹی آئی کی طرف سے کچھ گزارشات عدالت کے سامنے رکھنا چاہتا ہوں۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ آپ تحریری طور اپنا جواب سپریم کورٹ میں جمع کروا سکتے ہیں، ہم چاہتے ہیں منگل تک اس کیس کا کوئی نہ کوئی نتیجہ نکال سکیں۔

ایڈووکیٹ عزیر بھنڈاری نے کہا کہ مجھے اٹھا لیا گیا تھا، مجھے یقین دہانی کروائی جائے کہ اگر پھر میں اپنے کلائنٹ سے ملنے جاؤں تو پھر نا اٹھا لیا جاؤں۔ اٹارنی جنرل نے بتایا کہ ایڈوکیٹ عزیر بھنڈاری جو کہہ رہے ہیں، ایسا ان کے ساتھ کچھ نہیں ہوا۔

اٹارنی جنرل کے دلائل کے دوران ہی چیف جسٹس نے کیس کی مزید سماعت پیر تک ملتوی کر دی۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button