موٹے سیاست دانوں کو بے ایمان ثابت کرنے والی تحقیق کےلیے ’اگنوریبل پرائز‘ کا اعلان

ہارورڈ: اس سال معاشیات کا ’اگنوریبل پرائز‘ المعروف ’آئی جی نوبل پرائز‘ ایک ایسی تحقیق پر دیا گیا ہے جس میں سیاست دانوں کے موٹاپے اور کرپشن میں تعلق ثابت کیا گیا ہے۔

یہ تحقیق پچھلے سال مونٹ پیلیئر بزنس اسکول، فرانس کے پاولو بلاواٹسکی نے 15 ملکوں کے 299 سیاست دانوں پر کی تھی جس سے معلوم ہوا تھا کہ جن ممالک میں حکمران طبقے کے سیاست دانوں میں موٹاپا عام ہوتا ہے، وہاں کرپشن بھی زیادہ ہوتی ہے۔

ان ممالک میں آرمینیا، آذربائیجان، بیلارس، ایستونیا، جارجیا، قازقستان، کرغیزستان، لاتویا، لتھوانیا، مالدووا، روس، تاجکستان، ترکمانستان، یوکرین اور ازبکستان شامل تھے۔
بلاواٹسکی کی اس انعام یافتہ تحقیق کے نتائج ریسرچ جرنل ’’اکنامکس آف ٹرانزیشن اینڈ انسٹی ٹیوشنل چینج‘‘ میں پچھلے سال شائع ہوئے تھے۔

بتاتے چلیں کہ ’اگنوریبل پرائز‘ (Ig Nobel Prize) گزشتہ اکتیس سال سے ہر سال ایسی سائنسی تحقیقات پر دیا جارہا ہے جو بظاہر مضحکہ خیز اور ہنسا دینے والی ہوں لیکن دراصل بہت سنجیدہ اور سوچنے پر مجبور کرنے والی بھی ہوں۔

اس سال دس شعبوں میں تحقیق پر یہ انعام دیا گیا ہے جن میں حیاتیات، ماحولیات، طبیعیات، کیمیا اور معاشیات سے لے کر نقل و حرکت (ٹرانسپورٹیشن) تک شامل ہیں۔

اب واپس چلتے ہیں خبر کی طرف…

پروفیسر ڈاکٹر بلاواٹسکی نے اپنی تحقیق میں 15 ممالک کے 299 سیاست دانوں کے چہروں کی سامنے سے کھینچی گئی تصاویر جمع کیں، جو 2017 میں لی گئی تھیں۔

اس کے بعد ایک خاص کمپیوٹر پروگرام استعمال کرتے ہوئے انہوں نے ہر سیاست دان کا ’باڈی ماس انڈیکس‘ (بی ایم آئی) معلوم کیا۔

یہ سافٹ ویئر بطورِ خاص اسی مقصد کےلیے بنایا گیا ہے جبکہ اس کی کارکردگی بھی بہت اچھی اور قابلِ بھروسہ ہے۔

’بی ایم آئی‘ کسی شخص کے قد اور وزن میں تعلق کو ظاہر کرتا ہے، جسے موٹاپے کی پیمائش کا عالمی معیار تسلیم کیا جاتا ہے۔

پروفیسر بلاوٹسکی نے ان تمام سیاست دانوں کا انفرادی بی ایم آئی معلوم کیا، جس کی بنیاد پر انہوں نے 2017 کے دوران ہر ملک کی سرکاری کابینہ میں شامل سیاست دانوں کا انفرادی بی ایم آئی آپس میں جمع کیا اور حاصل ہونے والے ’مجموعی بی ایم آئی‘ کا جائزہ لیا۔

اس تجزیئے سے انہیں معلوم ہوا کہ جن ملکوں کی سرکاری کابینہ (یعنی حکومت) اپنے مجموعی بی ایم آئی کے لحاظ سے ’’زیادہ وزنی‘‘ تھی، ان ملکوں میں کرپشن بھی اتنی ہی زیادہ رہی تھی۔

کس ملک میں کتنی کرپشن ہے؟ یہ جاننے کےلیے پروفیسر بلاوٹسکی نے ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کا کرپشن پرسیپشن انڈیکس، کرپشن کنٹرول کےلیے سرکاری اقدامات سے متعلق ورلڈ بینک کا عالمی انڈیکس، اور بین الاقوامی ’انڈیکس آف پبلک انٹیگریٹی‘ سے استفادہ کیا۔

اس تحقیق سے صرف اتنا ہی معلوم ہوا کہ جن ممالک میں حکمران طبقے کے سیاستدانوں میں موٹاپا زیادہ ہوتا ہے، ان ملکوں میں کرپشن بھی اسی قدر زیادہ ہوتی ہے۔

ایسا کیوں ہے؛ اور کیا یہ بات دنیا کے تمام ملکوں کےلیے درست ہے؟ یہ جاننے کےلیے مزید تحقیق کی ضرورت ہے۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button