چار دواؤں والے ایک کیپسول سے بلڈ پریشر کا بہتر علاج

سڈنی: آسٹریلوی طبّی ماہرین نے تقریباً چار سال تک جاری رہنے والی ایک تحقیق سے دریافت کیا ہے کہ ہائی بلڈ پریشر کے مریضوں کو زیادہ مقدار میں ایک دوا کے بجائے چار دواؤں کی تھوڑی تھوڑی مقدار ایک ساتھ دی جائے تو انہیں زیادہ فائدہ پہنچتا ہے۔

نیو ساؤتھ ویلز کی یونیورسٹی آف سڈنی میں یہ طبّی آزمائشیں ہائی بلڈ پریشر کے 591 مریضوں پر ساڑھے تین سال تک جاری رہیں جبکہ ان میں شریک رضاکاروں کی عمر 18 سال سے زیادہ تھی۔

تحقیق کی غرض سے بلڈ پریشر کی چار مختلف دواؤں (اربیسارٹن، ایملوڈیپائن، انڈاپامائیڈ اور بائیسوپرولول) کی بہت کم مقدار (الٹرا لو ڈوز) کیپسول میں ایک ساتھ بند کی گئی۔
تفصیلی اور محتاط مطالعے کے بعد معلوم ہوا کہ مذکورہ چار دوائیں (بہت کم مقدار میں) ایک ساتھ لینے والے 80 فیصد مریضوں میں 12 ہفتے بعد ہائی بلڈ پریشر بخوبی کنٹرول ہوگیا جبکہ وہ دوسرے مریض جو ایک وقت میں کوئی ایک یا دو دوائیں قدرے زیادہ مقدار میں استعمال کررہے تھے، ان میں اسی وقفے کے دوران بلڈ پریشر کنٹرول ہونے کی شرح 60 فیصد کے لگ بھگ رہی۔

طبّی ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ 20 فیصد کا فرق بھی بہت اہم ہے کیونکہ آج تک بلڈ پریشر کنٹرول کرنے میں دواؤں کے استعمال سے متعلق کوئی ایک حکمتِ عملی بھی ایسی نہیں جسے ہر ایک کےلیے یکساں طور پر مؤثر قرار دیا جاسکے۔

مریض میں ہائی بلڈ پریشر کی علامات سامنے آنے پر بیشتر ڈاکٹر صاحبان پہلے ایک دوا سے شروع کرتے ہیں اور جب اس دوا کی تاثیر کم ہونے لگتی ہے تو اس کے ساتھ کوئی دوسری دوا بھی تجویز کردیتے ہیں۔

تاہم اس دوران اکثر خاصا وقت گزر چکا ہوتا ہے لہذا دونوں دوائیں مل کر بھی اچھے نتائج نہیں دے پاتیں۔

یہ اور ان جیسے کئی مسائل کی وجہ سے ہائی بلڈ پریشر آج تک ایک عالمی مسئلہ بنا ہوا ہے جسے انسان کا ’’دشمن نمبر ایک‘‘ بھی کہا جاتا ہے۔

اگر ہائی بلڈ پریشر کا سلسلہ طویل عرصے تک جاری رہے تو یہ دل کی مختلف بیماریوں اور ہارٹ اٹیک کے علاوہ فالج کی وجہ بھی بن سکتا ہے۔

’’کوارٹیٹ‘‘ کے عنوان سے کیے گئے مذکورہ مطالعے کی تفصیلات طبّی جریدے ’’دی لینسٹ‘‘ کے تازہ شمارے میں شائع ہوئی ہیں جن سے ظاہر ہوتا ہے کہ ایک ساتھ چار دوائیں (معمولی مقدار میں) دینے کے مفید اثرات زیادہ لمبے عرصے تک برقرار رہے۔

’’اگر اس نئی حکمتِ عملی سے ہائی بلڈ پریشر کے مریضوں کو پہلے سے صرف 20 فیصد زیادہ بھی افاقہ ہوتا ہے تو یوں سمجھیے کہ ہم ہر سال اس (ہائی بلڈ پریشر) سے متاثرہ، لاکھوں لوگوں کی جانیں بھی بچا سکیں گے،‘‘ ڈاکٹر کلارا چاؤ نے کہا، جو اس تحقیق کی نگراں اور یونیورسٹی آف سڈنی میں شعبہ طب کی پروفیسر بھی ہیں۔

البتہ انہوں نے اس بارے میں مزید تحقیق کی ضرورت پر زور دیا ہے تاکہ کوئی بہتر اور زیادہ مؤثر نتیجہ اخذ کیا جاسکے۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button