پاکستانی آزاد نہیں ہوا قیام عمل میں آیا ، پاکستان کیسے بنا؟ پروفیسر ایم ارشد کا خصوصی انٹرویو
انٹرویو: ثاقب علی راٹھور
پروفیسر ایم ارشد کا تعلق قبل ضلع گورداسپور سے ہے،قیام پاکستان کے بعد وہ تحصیل شکر گڑھ رہائش پذیر ہو گئے تھے، پیشے کے اعتبار سے استاد ہیں، قیام پاکستان کے وقت انکی عمر سات سال تھی،انہیں پاکستان کا سب سے پہلا ایم اے ماس کمیونیکیشن ہونے کا اعزاز بھی حاصل ہے، ایم ارشد کہتے ہیں کہ جس وقت پاکستان بنا تو اس وقت میری عمر تقریبا سات سال تھی یعنی میری تاریخ پیدائش 15ذ اکتوبر 1940 ہے، جب پاکستان بن رہا تھا سب کچھ میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا۔بلکہ سن 1946 کے انتخابات کی روداد بھی میرے سامنے ہے ہم چھوٹے بچے تھے سکول میں پڑھتے تھے، اس وقت جوش و جذبہ اتنا تھا کہ چھٹی ہوتے ہی بستے لیے بازار میں آ جاتے تھے۔ یہ واقعہ شکرگڑھ کا میں بیان کر رہا ہوں جو تاریخی لحاظ سے بہت عام ہے اور تقسیم ہند کے حوالے سے بے حد اہمیت کا حامل ہے جس پر آج کل اتنی توجہ نہیں دی جا رہی، توجہ دینی چاہیے بہت اہم خطہ ہے یہ یہ وہ تحصیل ہے جہاں یونینسٹ کو شکست ہوئی تھی 1946 کے انتخابات میں آل انڈیا مسلم لیگ اور یونینسٹ پارٹی دونوں کے درمیان الیکشن ہوا تھا اس میں مسلم لیگ جیت گئی تھی اور وہاں کے جو لیڈر تھے ان میں ایک خاص شخصیت تھی جن کا اکثر میں ذکر کرتا ہوں ان کا نام تھا صادق حسین ایڈوکیٹ میں اس لیے ذکر کرتا ہوں کیونکہ صادق حسین شاعر بھی تھے پولیٹیکل لیڈر بھی تھے قانون دان بھی تھے، اور سب سے بڑی بات یہ کہ پاکستانی تھے بہرحال سن 46 میں مسلم جیت گئی اور وہ مہم بھی ہم نے چلائی۔ ہم بچے بھی اس میں باقاعدہ حصہ لیتے تھے اور جوش و خروش کے ساتھ نعرے لگاتے ہوئے نعرے کیا تھے بابا جی کو ووٹ دو بابے کو ووٹ دو مسلم لیگ کو ووٹ دو اور لے کے رہیں گے پاکستان یہ ہمارا نعرہ ہوا کرتے تھے۔ پروفیسر ایم ارشد سے سوال کیا کہ اس وقت والدین بچوں منع نہیں کرتے تھے۔ ماحول اس طرح کا تھا کہ موٹیویٹ کرنے کی ضرورت ہی نہیں تھی ہر شخص سامنے آیا اور جہدوجہد کا حصہ بنا۔ اکثر جلسوں میں جو تقریریں ہوتی تھیں اس وقت ریڈیو پر ہم سنتے تھے۔ سکولوں میں بھی استاد ہمیں آگاہی دیتے رہتے تھے۔
شکرگڑھ ضلع گرداس پور کی ایک تحصیل تھی ضلع گرداس پور کی چار تحصیلیں تھیں پٹھان کوٹ، گرداس پور،مٹالہ اور شکرگڑھ ایریا وائس سب سے بڑے تحصیل تھی اور اکیاون فیصد مسلمانوں کی آبادی تھی۔ گرداسپور کی صرف یہی تحصیل تھی جو پاکستان میں شامل ہوئی اور اس لحاظ سے بھی مردم خیز سرزمین ہے تو اس کا ہیڈ کوارٹر شکرگڑھ شہر تھا۔ خوش قسمتی سے ان دنوں میں ہم لوگ شکر گڑھ میں تھے کیونکہ سکولوں میں چھٹیاں تھیں اور ہمارے والد صاحب سکول میں استاد تھے تو ہمیں شکر گڑھ کے آئے تھے۔ ہر طرف اگر غدر مچ گیا تھا افرا تفری تھی اور کافی قتل و غارت ہو گیا تھا مہاجرین وغیرہ آنے شروع ہو گئے تھے۔پاکستان کی دوسری سرحدوں کے بارے میں تو میں نہیں جانتا لیکن شکر گھڑ کا عینی شہد ہوں اس کا بارڈر شمال میں جموں کشمیر سے لگتا ہے اور ایسٹ میں گرداسپور پنجاب سے لگتا ہے۔
جب پاکستان بنا تو سب سے بڑا مسئلہ انخلا کا تھا، انخلا کے لیے شکرگڑھ میں کرفیو لگا دیا گیا تھا انڈین فوج کی جو گورکھا رجمنٹ تھی جو بہت دلیر اور جری ریجمنٹ تھی وہ وہاں پہنچی اور اس نے سارے شہر میں کرفیو لگا دیا ٹینک اور بکتر بند گاڑیاں جگہ جگہ متعین ہو گئی تو کرفیو کے ماحول میں ہندوؤں کو وہاں سے محفوظ راستہ دے کر نکالا گیا۔سوال یہ پیدا ہوتا ہے وہاں ہندوستان جانے والے ہندوؤں کو محفوظ طریقے سے کیوں نکالا گیا۔ اس وقت کسی بھی ہندو کو کوئی تکلیف نہیں ہوئی۔ ہندوستان آج تک پروپیگنڈا کرتا آ رہا ہے اس میں کوئی صداقت نہیں ہے۔ دوسری طرف مسلمان جو دوسرے علاقوں سے آئے ان میں مشرقی پنجاب سے آئے تھے۔ وہ سب مسلمان لٹے پٹے تھے، زخموں سے چور تھے، کسی کا کام نہیں تھا اور کوئی ٹانگ سے معذور تھا۔ شکرگڑھ شہر میں ایک سرکاری ڈسپنسری تھی اس کے لان میں ان کے پاس کوئی انتظام نہیں تھا چھوٹی سی ڈسپنسری تھی اتنے زخمیوں کو وہ بالکل سنبھال نہیں سکتی تھی تو زمین پر زخمی حالت میں پڑے ہوئے تھے ہر طرف چیخ و پکار تھی ، مسلمانوں کو بہت بری طرح مارا گیا تھا ان کو زخمی کیا گیا تھا۔ برچھیوں اور برموں سے مارا گیا تھا تو بہرحال یہ دل گداز مناظر تھے جو میں نے دیکھے، یہ واقعات کتابوں میں تو کم ہے لیکن بہت ہیبت ناک منظر تھا جو وہاں ہمارے مسلمان بھائی آئے تھے۔یہ جو 1946 کے لیے الیکشن کی بات کر رہیں ہے،الیکشن کے بعد ہی حالات خراب ہونے شروع ہو گئے تھے۔چنانچہ گورداسپور میں ہندوؤں اور سکھوں کی جنگی تیاری مکمل تھی۔ جو مین بازار تھا شگرگڑھ کا وہاں روز شمشیر زنی کی مشق کی جاتی تھی، شکرگڑھ کے مسلمانوں میں ایک خوف تو تھا۔ رات کو پہرا ہم خود لڑکے دیتے تھے اپنے اپنے گھروں اور گلیوں میں ٹولیاں بنا کر پہرا دیا کرتے تھے جسکو اس وقت ٹھیکری پہرا کہتے تھے ۔ہم نے بانس اور لکڑی کی بڑی بڑی چھڑیاں لے ہاتھوں میں تھامے گشت کرتے تھے۔ ایک جذبہ تھا پاکستان بنانے میں پاکستان بنتے ہوئے دیکھنے کا۔ ہماری جو 77 76 سال کی تاریخ ہے اس نے جونہی پاکستان بنا یہ سب جانتے ہیں کہ کیا حالات ہوئے سب سے پہلے اگلے سال ایک سال کے اندر ہمارے لیڈر قائد اعظم وفات پا گئے تھے۔ پاکستان کے حالات معمول پر بھی نہیں آئے تھے۔ تو آپ سوچیں ایک نومولود ریاست کو کن مسائل کا سامنا کرنا پڑ رہا ہو گا، قائد اعظم کے پائے کا کوئی لیڈر نہیں رہا تھا۔ چنانچہ یہی نقصان یہ ہوا پاکستان کو آئندہ آنے والے تقریبا 10 11 سال تک طوائف الملوکی رہی،ملک میں سیاسی افر تفری رہی کثرت سے حکومتیں بدلیں اور یہ بہت بڑا نقصان ہوا پاکستان کو سنبھلنے کا موقع ہی نہیں ملا پھر اس کے بعد 1958 میں حکومت آئی جو 10 سال رہی اس کے بعد فوجی حکومت میں پاکستان مضبوط ہوا ،ہمہ گیر ترقی ہوئی۔وہ پہلا دور تھا جس میں پاکستان مضبوط ہوا فوجی، صنعتی،سیاسی معاشرے اور معاشی لحاظ سے۔ اس کے بعد سے آج تک جو ہو رہا ہے وہ آپ سب دیکھ رہے ہیں۔ آج کل کے جو اینکرز ہیں وہ ٹی وی پر بیٹھ کر تجزیہ کرتے ہیں۔ہم پرانے لوگ ہیں میرے خیال کے مطابق جو بھی رات کو ٹی وی پر ہوتا ہے۔ بڑا شیلو ہے اور اس میں قومی جذبہ بہت کم ہے صرف ریٹنگ کا معاملہ ہے یہ بہت ہی منفی پوائنٹ ہے بالکل میں پسند نہیں کرتا۔ عوام کو حقائق اور قومیت پر بات بتانی چاہیے ۔ پروفیسر ایم ارشد سے قائد اعظم کے بارے میں سوال کیا کہ اگر وہ آج زندہ ہوتے تو پاکستان کی یہ حالت دیکھتے تو کیا کہتے تو انکا کہنا تھا کہ اگر وہ ایک سال بھی زندہ رہ جاتے یہ پاکستان کو آئین دے جاتے سب سے بڑا مسئلہ تھا آئین سازی کا اگر قائد زندہ رہتے ایک سال میں اس ملک کو آئین مل جاتا اگر آئین مل جاتا تو پاکستان کی تاریخ بدل جاتی۔ لیکن اس کے باوجود جو حالات ہیں ان میں بھی میں پُرامید ہوں۔ اس پر امید ہونے ایک وجہ نوجوان نسل ہے جو کہ بیدار ہو چکی ہے۔ پاکستان میں اس وقت پچاس فیصد سے زیادہ نوجوان ہیں بس انکو کوئی راستہ دکھانے والا اور قومی جذبہ پیدا کرنے والا ہو۔ لیکن اب بھی انکو درست سمت مل رہی ہے۔ انشاء اللہ جلد پاکستان بدلے گا اور ترقی کی راہ پر گامزن ہو گا۔