پلاسٹک شاپر کا استعمال: پاکستان میں نہ ختم ہونے والا رجحان اور بڑھتے ماحولیاتی خطرات

بین الاقوامی قوانین پر عمل درآمد کیسے ممکن؟

دنیا بھر میں پلاسٹک کے استعمال نے جس تیزی سے جڑیں مضبوط کی ہیں، وہ انسانیت، ماحولیاتی نظام اور آئندہ نسلوں کے لیے ایک سنگین خطرہ بنتا جا رہا ہے۔ پاکستان بھی ان ممالک میں شامل ہے جہاں پلاسٹک شاپئر کا استعمال نہ صرف تیزی سے بڑھ رہا ہے بلکہ اس کا مؤثر متبادل نہ ہونے کی وجہ سے ماحولیاتی نظام بری طرح متاثر ہو رہا ہے۔

پاکستان میں پلاسٹک کا رجحان

پاکستان میں پلاسٹک، خاص طور پر سنگل یوز پلاسٹک، ہر شعبہ زندگی میں استعمال ہو رہا ہے۔ بازاروں میں شاپنگ بیگز سے لے کر پیکنگ میٹریل، بوتلیں، اسٹرا اور کھانے پینے کے برتن تک ہر چیز میں پلاسٹک کا استعمال عام ہے۔ لاہور ویسٹ مینجمنٹ کمپنی (LWMC) کے مطابق، صرف لاہور شہر میں روزانہ 400 ٹن پلاسٹک کچرے کی صورت میں پیدا ہوتا ہے۔

یہ پلاسٹک زمین، پانی اور فضا کو آلودہ کر رہا ہے۔ سیوریج سسٹم میں رکاوٹ، نالوں کی بندش، زرعی زمینوں کی زرخیزی میں کمی، آبی حیات کی ہلاکت، اور انسانی صحت پر مضر اثرات، سب اسی زنجیر کا حصہ ہیں۔

ماحولیاتی اور انسانی صحت پر اثرات

پلاسٹک کی موجودگی نے زمینی اور آبی ماحولیاتی نظام کو شدید نقصان پہنچایا ہے۔ دریا، جھیلیں اور سمندر پلاسٹک کے فضلے سے بھر چکے ہیں، جہاں مچھلیاں، کچھوے اور دیگر آبی جانور پلاسٹک کے ذرات کو خوراک سمجھ کر نگل لیتے ہیں، جس سے ان کی اموات واقع ہو رہی ہیں۔

دوسری جانب، پلاسٹک مصنوعات میں شامل کیمیکلز جیسے بی پی اے اور فیتھیلیٹس انسانی جسم کے لیے زہر ثابت ہو سکتے ہیں۔ یہ ہارمونل تبدیلی، بانجھ پن، کینسر اور دل کی بیماریوں کا سبب بن سکتے ہیں۔

بین الاقوامی قوانین اور پاکستان

عالمی سطح پر پلاسٹک کی آلودگی کے تدارک کے لیے کئی معاہدے کیے جا چکے ہیں:

Basel Convention (1989): خطرناک فضلے کی برآمد و درآمد پر ضابطے لگانے والا معاہدہ۔

Global Plastics Treaty (زیر غور): اقوام متحدہ کی کوشش ہے کہ 2025 تک ایک ایسا قانونی فریم ورک تشکیل دیا جائے جو دنیا بھر میں پلاسٹک کی پیداوار اور آلودگی پر کنٹرول کر سکے۔

پاکستان ان معاہدوں کا حصہ تو ضرور ہے، مگر ان پر مؤثر عمل درآمد ایک بڑا چیلنج ہے۔

عمل درآمد کیسے ممکن؟

قومی پالیسیوں میں ہم آہنگی: بین الاقوامی معاہدوں کے مطابق پاکستان کو اپنے ماحولیاتی قوانین کو اپ گریڈ کرنا ہوگا۔

متبادل مصنوعات کا فروغ: ماحول دوست بایوڈیگریڈیبل اشیاء کی تیاری کو فروغ دے کر پلاسٹک پر انحصار کم کیا جا سکتا ہے۔

 صنعتی اصلاحات: صنعتی شعبے کو مجبور کیا جائے کہ وہ ماحولیاتی ذمہ داریوں کو اپنائے اور پلاسٹک ری سائیکلنگ کا مؤثر نظام بنائے۔

عوامی شعور کی بیداری: میڈیا، تعلیمی اداروں اور سول سوسائٹی کے ذریعے عوام میں پلاسٹک کے خطرات سے متعلق شعور بیدار کرنا وقت کی ضرورت ہے۔

عالمی تعاون ترقی یافتہ ممالک سے تکنیکی و مالی امداد حاصل کر کے پلاسٹک کی آلودگی کے خلاف مؤثر اقدامات کیے جا سکتے ہیں۔

پلاسٹک شاپئر  کے استعمال کا نہ رکنے والا رجحان پاکستان میں ماحولیاتی نظام، انسانی صحت اور معیشت کے لیے خطرے کی گھنٹی ہے۔ بین الاقوامی قوانین پر صرف دستخط کافی نہیں؛ ان پر عمل درآمد، مقامی سطح پر قانونی، صنعتی اور عوامی سطح پر اصلاحات اور عالمی تعاون کی ضرورت ہے تاکہ ہم ایک صاف، صحت مند اور پائیدار مستقبل کی طرف بڑھ سکیں۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button