شہباز شریف میرے مشورے مانتے تو یہ حالات نا ہوتے، شاہد خاقان عباسی
ملک میں استحکام آئین کے ساتھ کھڑا ہونے پر آئے گا، سابق وزیراعظم پاکستان

اسلام آباد(انٹرویو: ثاقب علی راٹھور) ملک کو آگے لے کر جانا ہے تو آئین پر عمل کرنا ہو گا، سیاستدانوں نے کرپشن کو فروغ دیا ہے، کسی کو حق نہیں پہنچتا کہ وہ سرکاری املاک کی توڑ پھوڑ کرے اور ملک پر چڑھائی کر دے، شہباز شریف میرے مشورے مانتے تو آج ان حالات میں نا ہوتے، سابق وزیراعظم پاکستان شاہد خاقان عباسی۔ اسلام آباد میں سابق وزیراعظم پاکستان و چیئرمین عوام پاکستان پارٹی شاہد خاقان عباسی نے کشمیر ٹائمز کے سوال پر کہا اگر ملک کے موجودہ حالات کا ذمہ دار تلاش کرتے رہیں گے تو ہمیں کوئی نہیں ملنا میری نظر میں ان حالات کے ذمہ دار ہم سب ہیں سب کی غلطیاں ہیں سب نے آئین توڑا ہے سب نے کرپشن کو فروغ دیا ہے سب نے اس ملک کے نظام نہیں چلنے دیا یہ ناکامی کی ایک داستان ہے۔ ملٹری ڈکٹیٹرز نے ملک کو نقصان پہنچایا ہے، جس کی دعوت سیاست دانوں نے دی ہے۔ سیاستدان ہی اس عمل کے حصہ دار بنے ہیں۔انہوں نے ملک کر ہائبرڈ حکومتیں بنائی ہیں، اس حمام میں کوئی بھی کپڑوں کے ساتھ نہیں ہے۔ پی ٹی آئی کے اسلام آباد احتجاج کے سوال پر شاہد خاقان عباسی کہتے ہیں یہ وہی کام ہے جو پاکستان میں 77 سال سے چل رہا ہے میں ہر ایک کو بتاتا ہوں کہ اس ملک میں جو آپ دیکھتے ہیں وہ ہوتا نہیں ہے اور جو ہوتا ہے وہ اپ کو نظر نہیں آتا، یہ سب تماشے ہیں بتا دیں۔ ٹرتھ کمیشن بنا دیں یقین کریں سب لوگوں کے ٹی وی پروگرام ختم ہو جائیں گئے۔ایسے ایسے کیس سامنے آئیں گئے کہ عوام کی آنکھیں کھل جائیں گی کہ ہم اس ملک کے ساتھ کیا کیا کرتے رہے ہیں۔ہم نے ایک نئی سیاسی جماعت بنائی جس کا مقصد ملک کو ایک ایسی سیاسی جماعت دینا ہے جو آئین کی بات کر سکے جو اصول کی بات کر سکے جو ملکی مسائل اور ان کے حل کی بات کر سکے جو نوجوانوں کو امید دے سکے،معاشی نظام کی درستگی کی بات کر سکے یہ صلاحیت اللہ کے کرم سے ہم نے پیدا کی ہے بہت سے لوگ شامل ہوئے ہیں اور مزید اس سلسلہ جاری رہے گا ایک یہ ایک عمل ہوتا ہے ایک دن کی بات نہیں ہے تو آج جو سیاسی جماعتیں ملک کے اندر ہیں ان کی ناکامی تو بڑی واضح ہے سب اقتدار میں رہ چکے ہیں کیا انہوں نے ملک کو کچھ دیا ہے؟ ملکی مسائل حل کیے ہیں۔ پھر بھی کہتے ہیں کہ ہمیں اور وقت دیا جاتا تو ہم کچھ بہتر کر سکتے ہیں کس کو وقت دینا ہے،یہ سب آزمائے ہوئے لوگ ہیں اگر آپ انکو پھر ازمانا چاہتے تو آپکی مرضی۔ اسلام آباد ہو یا ملک کا کوئی حصہ سب کو ذمہ داری سے کام کرنا چاہیے اپوزیشن کام ہی احتجاج کرنا ہے، وہ حکومت کے ہر عمل کی مخالفت کرتی ہے مخالفت اور دشمنی میں بڑا فرق ہوتا ہے یہ حکومت کو حق حاصل نہیں ہے کہ وہ احتجاج کا موقع نہ دے، اپوزیشن کو بھی یہ حق حاصل نہیں ہے کہ وہ سڑکیں اور املاک توڑ دے،احتجاج بنیادی حق ہے لیکن آئین کے اندر رہ کر کرنا چاہیے، ساتھ یہ بھی کسی کو حق نہیں ہے کہ وہ ایک صوبائی حکومت کی مشینری اور طاقت لے کر وفاق پر حملہ آور ہو۔ علی امین گنڈاپور ایک صوبے کا وزیر اعلیٰ ہے جو کہ ایک آئینی عہدے دار ہیں ان کے پاس اختیارات ہیں صوبے کے اگر وہ پولیس کو ہی کہیں گے میرے ساتھ چلو تو پولیس کو انا پڑے گا۔پاکستان میں کسی نے کوئی نظام بدلنے کی کوشش کی ہے؟ سب نے اپنی اپنی باری لگائی اور چلے گئے۔ملک کے اندر سیاسی انتشار ہو گا تو معشیت نہیں چلے گی، معشیت نہیں چلے گی تو نوجوان کو روزگار نہیں ملے پھر وہ ملک سے باہر جانے کی بات کرے گا، اس سب کی بنیاد پاکستان کا آئین ہے آئین پر چلیں تو ملک درست سمت چلے گا۔اس وقت حکومت کے اندر خوف ہے۔ ہمیں ماضی کی غلطیاں کی دہرا کر نظام درست نہیں ہو سکتا،ہم نے آج تک ان غلطیوں سے کچھ بھی نہیں سیکھا۔ عمران خان وزیراعظم تھے جیل جانے کا مسئلہ نہیں ہے یہ پاکستان کی روایت ہے لیکن یہ عمل رکنا چاہیے۔ شہباز حکومت سے مطمئن ہونے کے سوال پر کہتے ہیں کہ پاکستان کی چوبیس کروڑ عوام مطمئن نہیں ہے ہاں شہباز شریف مطمئن ہوں تو کہا نہیں جا سکتا۔ شہباز شریف اس وقت وزیراعظم ہیں انکو مشوروں کی ضرورت نہیں میں نے تو بہت مرتبہ انکو مشورے دئیے اگر میرے مشوروں پر عمل کرتے تو اس وقت یہ حالات نا ہوتے۔