دال کے دانے جتنا سینسر، جو جسمانی گہرائی میں آکسیجن ناپ سکتا ہے
برکلے، کیلیفورنیا: جدید برقیات کی بدولت اب صرف دال کے دانے جتنا آلہ بنایا گیا ہے جو جسم کی گہرائی میں جاکر وہاں آکسیجن کی مقدار نوٹ کرسکتا ہے۔ اس کی بدولت منتقل کردہ جسمانی اعضا کی کارکردگی اور صحت کو دیکھا جاسکتا ہے۔
اس سے قبل ہم مقناطیسی گمک کی طیف نگاری (میگنیٹک ریزوننس امیجنگ) کو استعمال کرتے رہے ہیں لیکن اس سے چند سینٹی میٹر گہری بافتوں میں ہی جھانک کر وہاں آکسیجن کا احوال دیکھا جاسکتا ہے۔ لیکن اب نئے سینسر سے بدن کی مزید گہرائی تک کا جائزہ لیا جاسکتا ہے۔
یونیورسٹی آف کیلیفورنیا ، برکلے کے سائنسدانوں نے بہیر بوٹی کیڑے جتنا ایک وائرلیس سینسر بنایا ہے جسے ’اعصابی گرد‘ کا نام دیا گیا ہے۔ یہ حقیقی وقت میں اعصابی سگنل اور پٹھوں کی کارکردگی نوٹ کرتا ہے۔ یہ عضلات کی برقی سرگرمی میں اتار چڑھاؤ کو نوٹ کرکے اس کی معلومات الٹراساؤنڈ کی صورت میں جسم سے باہر موجود ایک آلے کو بھیجتا ہے۔ اس کے علاوہ بہت جلد یہ پٹھوں کے درد اور مرگی وغیرہ کو سمجھنے میں بھی مددگار ثابت ہوسکتا ہے۔
اس کی لمبائی ساڑھے چار ملی میٹر اور چوڑائی صرف تین ملی میٹر ہے جسے آکسیجن ناپنے والی ایک باریک پرت پر چپکایا جاتا ہے۔ اس نظام میں ایک خردبینی ایل ای ڈی اور آپٹیکل فلٹر بھی شامل ہے جو اطراف کے ٹشوز (بافتوں) میں آکسیجن کی مقدار نوٹ کرتا ہے۔
اب یہاں پیزوالیکٹرک (داب برق) کرسٹل برقی سگنلوں کو الٹراساؤنڈ امواج بناتا ہے اور بیرونی آلے تک بھیجتا ہے۔ ہم جانتے ہیں کہ جسم کی گہرائی میں مختلف کیفیات معلوم کرنا کتنا مشکل ہوتا ہے۔ اس پر کام کرنے والے پروفیسر مائیکل مہاربز کہتے ہیں کہ ہم نے بہت سمجھداری سے اسمارٹ انٹی گریٹڈ سرکٹ بنایا ہے جو بدن کی گہرائی میں جاکر ڈیٹا فراہم کرتا ہے۔
اسے بھیڑ بکریوں پر آزمایا گیا ہے اور اسے نومولود بچوں کی جان بچانے میں بھی استعمال کیا جاسکتا ہے۔ پیدائشی بچوں کو آکسیجن کی درست مقدار دینا بہت ضروری ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ سرجری کے بعد پیوند کی کیفیت، سرطانی رسولی کے جائزے اور ریڈی ایشن کے بعد اس کی کیفیت معلوم کرنے میں بھی یہ بہت معاون ثابت ہوسکتا ہے۔
اگلے مرحلے میں اسے مزید بہتر بنا کر اسے جسم میں پہنچانے کا نظام مؤثر اور بہتر بنایا جائے گا۔ معمولی تبدیلی کے بعد جسم میں تیزابیت، شکر، کاربن ڈائی آکسائیڈ اور پی ایچ وغیرہ ناپنے میں بھی یہ مفید ثابت ہوسکتا ہے۔