قومی سلامتی کمیٹی کے اعلامیے میں سازش کا کوئی ذکر نہیں، ترجمان پاک فوج

ڈی جی آئی ایس پی آر میجر جنرل بابر افتخار نے کہا ہے کہ قومی سلامتی کمیٹی کے اعلامیے میں سازش کا کوئی ذکر نہیں، فوج کو سیاست میں نہ گھسیٹا جائے، یہ سازش نہ پہلے کبھی کامیاب ہوئی تھی اور نہ اب ہوگی۔

ڈائریکٹر جنرل آئی ایس پی آر میجر جنرل بابر افتخار نے کہا کہ عوام کی حمایت مسلح افواج کی طاقت کا سرچشمہ ہے، افواہوں کی بنیاد پر پاک فوج کی کردار کشی کسی طور قبول نہیں، فوج کی تعمیری تنقید مناسب ہے لیکن بے بنیاد کردار کشی کسی بھی صورت قابل قبول نہیں۔

نیوٹرل وغیرہ کوئی چیز نہیں، فوج کو سیاست میں نہ گھسیٹیں

انہوں نے کہا کہ پاک فوج کے خلاف منظم مہم چلائی جارہی ہے،عوام اور فوج کے درمیان خلیج پیدا کرنے کی کوشش کی جارہی ہے، نیوٹرل وغیرہ کوئی چیز نہیں، عوام اور سیاسی پارٹیوں سے درخواست ہے کہ فوج کو سیاست میں نہ گھسیٹیں، یہ سازش نہ پہلے کبھی کامیاب ہوئی تھی اور نہ اب ہوگی۔

قومی سلامتی کے اعلامیے میں سازش کا لفظ نہیں ہے

ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ پاک فوج نے خط کے معاملے پر اپنا موقف قومی سلامتی کمیٹی میں پیش کیا، ہماری خفیہ ایجنسیاں تمام خطرات کے خلاف چوکنا ہیں اور خفیہ ایجنسیوں سمیت تمام ادارے بھرپور طریقے سے کام کررہے ہیں، خود دیکھ لیں کہ قومی سلامتی کے اعلامیے میں سازش کا لفظ نہیں ہے، ہم پاکستان کے خلاف کسی بھی قسم کی سازش کو کامیاب ہونے نہیں دیں گے۔

ایٹمی اثاثوں کی بات کرتے ہوئے محتاط رہنا چاہیے

انہوں نے کہا کہ تمام سیاسی قیادت نے ہر دور میں ایٹمی پروگرام کے لیے کردار ادا کیا، ہمارے ایٹمی پروگرام کو کوئی خطرہ نہیں، ایٹمی پروگرام کو سیاسی مباحثوں کا حصہ نہیں بنایا جاسکتا کیوں کہ ایٹمی اثاثے کسی سیاسی قیادت سے منسلک نہیں، ایٹمی اثاثوں کی بات کرتے ہوئے محتاط رہنا چاہیے۔

پاک فوج کا سیاست سے کوئی لینا دینا نہیں ہے

بابر افتخار نے کہا کہ سیاسی جماعتوں کا مطالبہ تھا کہ پاک فوج کا سیاست میں عمل دخل نہیں ہونا چاہیے اور اب اس بات کو عملی جامہ پہنایا گیا ہے، پاک فوج کا سیاست سے کوئی لینا دینا نہیں ہے پاک فوج اپنا آئینی اور قانونی کردار ادا کرتی ہے اور کرتی رہے گی۔

آرمی چیف اور ڈی جی آئی ایس آئی وزیراعظم ہاؤس گئے جہاں تین آپشنز پر بات ہوئی

اسٹیبلشمنٹ کی جانب سے سابق وزیراعظم عمران خان کو تین آپشنز دیے جانے کے سوال پر انہوں نے کہا کہ اسٹیبلشمنٹ کی جانب سے انہیں تین آپشنز نہیں دیے گئے، افسوس ہوا کہ سیاسی قیادت آپس میں بات چیت کرنے کے لیے تیار نہیں تھی، وزیراعظم کی جانب سے آرمی چیف سے کہا گیا ہے کہ ڈیڈ لاک ہوگیا ہے بیچ بچاؤ کرائیں، آرمی چیف اور ڈی جی آئی ایس آئی وزیراعظم ہاؤس گئے تھے اور ان کے ساتھ ان کے رفقا بھی موجود تھے، آرمی چیف سے بات چیت کے دوران تین آپشنز پر بات ہوئی۔

بی بی سی کی خبر واہیات اسٹوری ہے

دو اہم شخصیات کے نو اپریل کی رات وزیراعظم ہاؤس جانے کے سوال پر انہوں نے کہا کہ 9 اپریل کی رات کے حوالے سے بی بی سی کی خبر واہیات اسٹوری اور جھوٹ پر مبنی ہے۔

امریکا نے پاکستان سے فوجی اڈے نہیں مانگے

میجر جنرل بابر افتخار نے اس بات کی تردید کی کہ امریکا نے پاکستان سے فوجی اڈے مانگے، انہوں نے کہا کہ امریکا نے فوجی اڈے مانگے اور نہ ہم نے دیے، اگر مانگتے بھی تو پاک فوج کا وہی موقف ہوتا جو وزیراعظم کا تھا۔

آرمی چیف نہ ہی مدت میں توسیع طلب کی نہ قبول کریں گے

انہوں نے کہا کہ آرمی چیف واضح کرچکے ہیں کہ فوج کا سیاست سے کوئی لینا دینا نہیں، آرمی چیف رواں سال 29 نومبر کو ریٹائرڈ ہوجائیں گے، آرمی چیف نہ ہی مدت میں توسیع طلب کررہے ہیں اور نہ ہی قبول کریں گے۔

فوج کے بارے میں غیر مناسب زبان سے گریز کرنا چاہیے

ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ فوج کے خلاف سوشل میڈیا پر چلنے والی مہم کے خلاف متعلقہ ادارے کام کر رہے ہیں، فوج کے بارے میں غیر مناسب زبان کے استعمال سے گریز کرنا چاہیے، کسی کے جھوٹا ہونے کے لیے اتنا ہی کافی ہے کہ وہ بغیر تصدیق بات کو آگے پہنچادے۔

ملک میں اب کبھی مارشل لا نہیں آئے گا

انہوں نے کہا کہ پاکستان کی بقا جمہوریت میں ہے، عدالتیں فوج کے ماتحت نہیں وہ اپنے فیصلوں میں آزاد ہیں، پارلیمنٹ،سپریم کورٹ اور مسلح افواج جمہوریت کے محافظ ہیں، ملک میں اب کبھی مارشل لا نہیں آئے گا۔

فوج کون ہوتی ہے کسی کو این آر او دینے والی

سیاسی جماعتوں کو این آر او دینے کے سوال پر بابر افتخار نے کہا کہ فوج کسی کو این آر او دینے کی پوزیشن میں نہیں، فوج کون ہوتی ہے کسی کو این آر او دینے والی؟ وہ اپنا کام کررہی ہے۔

اگر کوئی دھمکی موصول ہوئی تو وہ وزارت داخلہ دیکھتی ہے

دھمکی آمیز مراسلے پر انہوں نے کہا کہ اگر کوئی دھمکی موصول ہوئی تو وہ وزارت داخلہ دیکھتی ہے، احتجاجی مراسلے صرف سازش پر نہیں اور بھی کئی معاملات میں جاری کیے جاتے ہیں، یہ سفارتی طریقہ کار ہے۔

سیاسی تقاریر میں آرمی چیف کا نام آئے تو یہ پوچھنا حکومت کا کام ہے

ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ منفی مہم میں صرف فوج نہیں سب زد میں آرہے ہیں، آرمی چیف ایک ادارے کے سربراہ ہیں اور یہ ادارہ حکومت کے ماتحت ہے اگر سیاسی تقاریر میں آرمی چیف کا نام لیا گیا ہے تو یہ پوچھنا کس کا کام ہے؟

فوج کے خلاف پروپیگنڈے میں بیرونی ہاتھ بھی ملوث ہے

میجر جنرل بابر افتخار نے کہا کہ بطور ادارہ ہماری کوئی زبان نہیں، پراپیگنڈے کے ذریعے اداروں کے خلاف نفرت پھیلائی جارہی ہے، ڈس انفارمیشن سے فوج کو نشانہ بنایا جارہا ہے، پراپیگنڈ ے سے محفوظ رہنے کے لیے ہمیں مربوط اقدامات کرنے پڑیں گے، عوام کی حمایت فو ج کے لیے ضروری ہے، آرمی چیف جس طرف دیکھتے ہیں 7 لاکھ افواج اسی جانب دیکھتی ہیں، فوج اتحاد کے تحت کام کرتی ہے، فو ج کے خلاف منفی مہم کا حصہ نہ بنا جائے، فوج کے خلاف پروپیگنڈے کی سازش میں بیرونی ہاتھ بھی ملوث ہے۔

آرمی چیف بیماری کے سبب حلف برداری میں نہیں گئے

نومنتخب وزیراعظم شہباز شریف کی حلف برداری کی تقریب میں شرکت نہ کرنے کے سوال پر ترجمان پاک فوج نے کہا کہ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ علیل تھے اس سبب وہ تقریب حلف برداری میں شرکت نہیں کرسکے اور وہ اس دن دفتر بھی نہیں گئے تھے۔

آرمی چیف کا عمران خان کے ساتھ اچھا تعلق ہے

ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ آرمی چیف کا عمران خان کے ساتھ اچھا تعلق ہے، عمران خان نے فوج کےحوالے سے اچھے بیانات دیئے ہیں۔ ایک اور سوال پر انہوں نے کہا کہ انتخابات کب ہونے ہیں آگے کیسے جانا ہے یہ ہمارا کام نہیں، سیاست دانوں کا کام ہے۔

متعلقہ آرٹیکلز

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button