حجاب اور کلاسں میں پردے کے انتظام کیساتھ خواتین تعلیم جاری رکھ سکتی ہیں، طالبان

کابل: طالبان حکومت کے اعلیٰ تعلیم کے وزیر نے کہا کہ افغانستان میں خواتین پوسٹ گریجویٹ لیول سمیت جامعات میں تعلیم جاری رکھ سکتی ہیں لیکن کلاس روم میں صنفی تقسیم اور اسلامی لباس لازمی شرائط ہوں گی۔

عالمی خبر رساں ادارے کے مطابق طالبان حکومت کے وزیر تعلیم عبدالباقی حقانی نے نیوز کانفرنس میں پالیسی بیان دیتے ہوئے کہا ہے کہ طالبان گھڑی کو 20 سال پیچھے نہیں کرنا چاہتے بلکہ آج سے ہی موجود چیزوں کی تعمیر شروع کریں گے۔

تاہم وزیر تعلیم نے یہ بھی کہا کہ یونیورسٹی کی طالبات کو بشمول ڈریس کوڈ کے مختلف پابندیوں کا سامنا کرنا پڑے گا۔ طالبات کے لیے حجاب اور مکمل اسلامی لباس زیب تن کرنا لازمی ہوگا۔
وزیر تعلیم عبدالباقی حقانی نے مزید کہا کہ کلاس روم میں لڑکیوں اور لڑکوں کی نشستوں کے درمیان پردہ، باڑ یا کوئی رکاوٹ ہونا ضروری ہوگا۔ مخلوط تعلیم کی اجازت نہیں دے سکتے نہ لڑکے اور لڑکیوں کو ایک ساتھ بیٹھنے کی اجازت ہوگی۔

وزیر تعلیم نے اس خواہش کا بھی اظہار کیا کہ افغانستان کی یونیورسٹیوں کے فارغ التحصیل طلبا خطے اور باقی دنیا کے یونیورسٹیوں کے گریجویٹس کے ساتھ مسابقت کریں لیکن ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ پڑھائے جانے والے مضامین کا بھی جائزہ لیا جائے گا۔

وزیر تعلیم عبدالباقی حقانی نے یہ نہیں بتایا کہ نصاب میں زیر غور تبدیلیاں کس قسم کی ہوسکتی ہے اور ڈریس کوڈ میں حجاب کی پابندی کا مطلب اسکارف پہننا ہوگا یا چہرے کا مکمل ڈھانپنا لازمی ہوگا۔

طالبان رہنما کئی بار اس بات کی یقین دہانی کرا چکے ہیں کہ نوّے کی دہائی کے برعکس اس بار ان کی طرز حکومت میں کافی تبدیلیاں نظر آئیں گی اور خواتین کو ملازمتوں اور تعلیم تک رسائی دی جائے گی۔

تاہم اس کے برعکس خواتین پر کھیلوں پر پابندی عائد کردی گئی ہے اور تعلیمی پالیسی میں اب بھی کئی نکات واضح نہیں جب کہ ملازمتوں پر واپسی کو بھی مؤخر کردیا گیا ہے۔

متعلقہ آرٹیکلز

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button