دنیا کا سخت ترین شیشہ جو ہیرے پر خراش ڈال سکتا ہے!

بیجنگ: چینی سائنسدانوں نے دنیا کا سخت ترین شیشہ بنایا ہے جو اپنی سختی کی بنا پر ہیرے پر بھی نشان ڈال سکتا ہے۔ فی الحال اسے ایے ایم تھری کا نام دیا گیا ہے اور سختی کے وکرز ٹیسٹ پر یہ 113 گیگا پکسل (جی پی اے) تک پہنچ چکا ہے۔

اگر اس شیشے کی سختی کا مقابلہ ہیرے سے کیا جائے تو وہ 50 سے 70 جی پی اے ہوگا اور انسان کی تیارکردہ بعض اشیا 100 جی پی اے سختی تک پہنچ پائی ہے۔ اس طرح چینی شیشے کو دنیا کا بہترین بلٹ پروف شیشہ قرار دیا جاسکتا ہے۔ سائنسدانوں کے مطابق اعلیٰ ٹیکنالوجی کی مصنوعات میں بھی اسے استعمال کیا جاسکتا ہے۔

اے ایم تھری کی دوسری اہم بات یہ ہے کہ مکمل طور پر نیم موصل (سیمی کنڈکٹر) ہے اور اسے سلیکون کی طرح استعمال کیا جاسکتا ہے۔ یہ ایجاد بجلی گزارنے کی بنا پر فوٹو الیکٹرک آلات، جنگی ہتھیار اور موسمیاتی شدت یا دباؤ میں کارآمد آلات کی تیاری میں استعمال ہوسکتی ہے۔
یانشن یونیورسٹی میں واقع ہائی پریشر سائنس کے مرکز سے وابستہ تیان یونگ جن اور ان کے ساتھیوں نے یہ شیشہ تیار کیاہے۔ پروفیسر تیان کے مطابق اس طرح کے غیرمعمولی سخت، غیرمعمولی مضبوط، سیمی کنڈکٹر کاربن کے بہت سے عملی استعمالات ہیں۔ اس کی تفصیلات نیشنل سائنس ریویو کی تازہ اشاعت میں شامل ہوا ہے۔

ہم جانتے ہیں کہ شیشہ ہیرے کے مقابلے میں بہت کمزور ہوتا ہے لیکن کیوں؟ ہیرے کے کرسٹلز میں ایٹم اور سالمات (مالیکیول) ایک خاص انداز میں ترتیب پاتے ہیں جو ہیرے کو مضبوطی فراہم کرتے ہیں۔ اس کے مقابلے میں شیشے میں سالمات اور ایٹموں کی ترتیب اصل میں بے ترتیب ہوتی ہے جو اسے کمزور بناتی ہے۔ لیکن یاد رہے کہ تکنیکی طور پر اے ایم تھری کوئی شیشہ نہیں ہے بلکہ ایسا شیشہ ہے جس کے اندر کرسٹلز ہیں۔

خردبین سے دیکھنے پر اس میں واضح ساختیں کسی کرسٹل کی مانند دکھائی دیتی ہیں لیکن جب انہیں مزید زوم کیا جائے تو اندر بے ترتیب کیڑے نما ساختیں دکھائی دیتی ہیں۔ اس طرح یہ مٹیریئل ایک انوکھی ساخت اور خواص رکھتا ہے۔ اس سے قبل 2013 میں اسی ٹیم نے ہیرے جیسا دوگنا سخت مٹیریئل بورون نائٹریٹ کے کرسٹل سے تیار کیا تھا اور یہ ریکارڈ اب تک قائم ہے۔

اے ایم تھری کی تیاری میں ایک اور قیمتی مٹیریئل فلرنس استعمال ہوا ہے جس کے سالمات فٹ بال کی شکل کے ہوتےہیں۔ یہ کاربن سے بنے ہوتے ہیں لیکن درمیان میں خالی جگہ ہوتی ہے۔ تاہم سالمات کی ساخت کو احتیاط سے مرتب کیا گیا ہے۔

متعلقہ آرٹیکلز

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button