ایغور مسلمانوں پر پاکستان نے چین کا مؤقف تسلیم کیا ہے، وزیر اعظم

وزیراعظم عمران خان کا کہنا ہے کہ ایغور مسلمانوں پر عالمی برادری اور چین کا مؤقف بہت مختلف ہے اور ہم اس معاملے پر چین کے مؤقف کو تسلیم کرتے ہیں۔

چینی میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ پاک چین اقتصادی راہداری (سی پیک) پاکستان کے مستقبل کی اقتصادی ترقی کے لیے نہایت اہم ہے۔

انہوں نے بتایا کہ ’جلد گوادر کا دورہ کروں گا تاکہ سی پیک کے منصوبوں کی رفتار کا معائنہ کرسکوں گا اور جلد چین کے دورے کا بھی منتظر ہوں‘۔

ان کا کہنا تھا کہ ’چین کے دورے میں پاکستان اور چین کے درمیان سیاسی اور اقتصادی تعلقات کو فروغ دینے پر بات کروں گا’۔

’چین کی اقتصادی ترقی کا تربیتی نظام کسی بھی انتخابی جمہوریت سے بہتر ہے‘
چین کی کمیونسٹ پارٹی کی عوام دوست پالیسی اور چین کی ترقی میں کردار کے حوالے سے ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ مغربی جمہوریت کسی بھی معاشرے کی ترقی کا بہترین نظام ہے تاہم چین کی کمیونسٹ جماعت (سی پی سی) نے ایک متبادل نظام دیا ہے جس نے تمام مغربی جمہوریتوں کو مات دی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ جس معاشرے میں حکمران طبقے کا احتساب ہو اور میرٹ ہو وہ کامیاب ہوتا ہے، اب تک یہ خیال تھا کہ جمہوریت کے ذریعے میرٹ پر حکمران منتخب ہوتے ہیں اور پھر اس قیادت کا احتساب بھی کیا جاسکتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ ’تاہم سی پی سی نے انتخابی جمہوریت کے بغیر تمام مقاصد زیادہ بہتر طریقے سے حاصل کیے ہیں‘۔

عمران خان کا کہنا تھا کہ ’کمیونسٹ پارٹی کے ہیڈکوارٹر کے دورے کے دوران دیکھا کہ ان کا ٹیلنٹ کی تلاش اور پھر اس کی تربیت کرنے کا نظام کسی بھی انتخابی جمہوریت سے بہتر ہے‘۔

ان کا کہنا تھا کہ ’تیسری بات یہ ہے کہ یہ بہت لچکدار نظام ہے، جب وہ کوئی چیز تبدیل کرنا چاہتے ہیں تو یہ نظام اس کی حمایت کرتا ہے‘۔

انہوں نے کہا کہ ’ہمارے معاشرے اور یہاں تک کہ مغربی جمہوریتوں میں کسی نظام میں تبدیلی بہت مشکل ہے، آپ ہمیشہ وہ نہیں کرسکتے جو معاشرے کے لیے بہتر ہو‘۔

وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ ’چین نے اس لیے اتنی تیزی سے ترقی کی کہ وہ اپنے نظام میں تیزی سے تبدیلی لاتے ہیں، جب وہ سمجھتے ہیں کہ کوئی نظام کام نہیں کر رہا وہ اسے تبدیل کردیتے ہیں‘۔

ان کا کہنا تھا کہ ’چوتھی بات طویل المدتی منصوبہ بندی ہے، انتخابی جمہوریت میں صرف اگلے 5 سال کی منصوبہ بندی کی جاتی ہے‘۔

پاکستان اور چین کے قریبی سیاسی اور معاشی حالات کے بارے میں ایک سوال کے جواب میں وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ ’سی پیک کا اگلا مرحلہ پاکستان کے لیے بہت حوصلہ افزا ہے، ہمارے پاس خصوصی اقتصادی زون ہوں گے، ہمیں اُمید ہے کہ چینی صنعت ان خصوصی زونز کی طرف متوجہ ہوگی، ہم انہیں مراعات دیں گے‘۔

ان کا کہنا تھا کہ ’پاکستان میں لیبر سستی ہے اور اُمید ہے کہ چینی صنعتکار اس طرف متوجہ ہوں گے‘۔

انہوں نے کہا کہ ’ہم چین سے زراعت کے شعبے میں تعاون کے خواہاں ہیں، پاکستان بنیادی طور پر ایک زرعی ملک ہے اور ہم نے اپنی زرعی پیداوار بڑھانے پر خاص توجہ نہیں دی، اُمید ہے کہ ہم چین کی جدید زرعی مہارت سے استفادہ کرسکتے ہیں‘۔

چینی صدر شی جن پنگ کی قیادت کے انداز کے حوالے سے ایک سوال کے جواب میں وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ صدر شی جن پنگ اور وزیر اعظم لی جس عمل کے ذریعے اس مقام تک پہنچے ہیں اس کے لیے انہوں نے 30 سال کی جدو جہد کی، انہوں نے دیہات کی سطح سے جدوجہد کا آغاز کیا اسی محنت سے وہ لیڈر بنے‘۔

انہوں نے کہا کہ ’اس قسم کا عمل بہت ساری انتخابی جمہوریتوں میں ناپید ہے، امریکی صدر کو اس قسم کی سخت محنت اور جدوجہد سے نہیں گزرنا پڑتا ہے‘۔

ان کا کہنا تھا کہ ’چینی قیادت جب اعلیٰ ترین مقام پر پہنچتی ہے تو انہیں بھرپور تجربہ حاصل ہوچکا ہوتا ہے، وہ نظام کو مکمل طور پر سمجھتے ہیں، انہیں معلوم ہوتا ہے کہ نچلی سطح پر لوگ کیسی زندگی بسر کر رہے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ وہ غربت کے خاتمے میں کامیاب رہے‘۔

انہوں نے کہا کہ ’دنیا چین کے بارے میں جو بھی سوچے ہر ایک چینی صدر کی کامیابیوں کو سراہے گا، صدر شی جن پنگ نے یہ دنیا کو ثابت کیا ہے‘۔

’دباؤ میں آکر چین سے تعلقات میں تبدیلی نہیں لائیں گے’
پاکستان اور چین کے سفارتی تعلقات کے 70 سال کے خطے پر اثرات کے خطے کے حوالے سے ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ ’پاکستان اور چین کے تعلقات بہت خصوصی ہیں، چین نے ہمیشہ مشکل وقت میں ہمارا ساتھ دیا‘۔

ان کا کہنا تھا کہ ’چین اور اس کے لوگوں کا پاکستانیوں کے دلوں میں خاص مقام ہے، دونوں ممالک کے تعلقات روز بروز مضبوط ہورہے ہیں‘۔

انہوں نے کہا کہ ’چین اور امریکا کے اختلافات سے پیچیدگیاں سامنے آئی ہیں، اس سے مسائل پیدا ہوتے ہیں، پاکستان سمجھتا ہے کہ یہ بات درست نہیں کہ امریکا اور دیگر مغربی قوتیں پاکستان جیسے ممالک کو کسی ایک گروپ کا ساتھ دینے پر مجبور کریں‘۔

وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ ’ہم تعلقات میں جانب داری کیوں کریں، ہم سب کے ساتھ اچھے تعلقات چاہتے ہیں‘۔

ان کا کہنا تھا کہ ’پاکستان چین کے ساتھ اپنے تعلقات کو کبھی کم نہیں کرے گا، یہ کبھی نہیں ہوگا، پاکستان اور چین کے تعلقات بہت گہرے ہیں جتنا بھی دباؤ ہو ہمارے تعلقات تبدیل نہیں ہوں گے‘۔

سنکیانگ میں چین کی جانب سے اٹھائے گئے اقدامات پر بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ‘سنکیانگ کے حوالے سے مغربی میڈیا اور حکومتوں کے مؤقف اور چین کے مؤقف میں فرق ہے، ہم چینی مؤقف کو تسلیم کرتے ہیں‘۔

ان کا کہنا تھا کہ ’مقبوضہ کشمیر سمیت دنیا میں ناانصافی کے متعدد واقعات ہوئے ہیں مگر ان پر کوئی توجہ نہیں دیتا، مقبوضہ کشمیر کے حوالے سے مغربی میڈیا میں بہت کم کوریج ہوتی ہے جو منافقانہ رویہ ہے‘۔

ایک اور سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ ’آنے والے دنوں میں انسانیت کے لیے سب سے بڑا خطرہ ماحولیاتی تبدیلی ہے، چین میں ماحولیاتی آلودگی سے متعلق آگاہی بہت زیادہ ہے‘۔

’افغانستان کی صورتحال کا کسی کے پاس جواب نہیں‘
افغانستان میں صورتحال کے حوالے سے ایک سوال کے جواب میں وزیر اعظم نے کہا کہ ’بدقسمتی سے ابھی کسی کے پاس اس کا جواب نہیں ہے‘۔

انہوں نے کہا کہ امریکا کا افغانستان میں فوجی حل تلاش کرنے کی کوشش کرنا اس کی سب سے بڑی غلطی ہے، وہ بار بار یہی کام کرتے رہے اور سوچتے رہے کہ انہیں کوئی دوسرا نتیجہ ملے گا‘۔

انہوں نے وضاحت دی کہ تاریخی طور پر افغانستان کے عوام نے ’بیرونی مداخلت‘ کے خلاف مزاحمت کی ہے، ’آپ افغانستان پر حملہ تو کرسکتے ہیں لیکن جب آپ وہاں پہنچ جائیں تو اسے کنٹرول کرنا بہت مشکل ہے‘۔

وزیر اعظم عمران خان نے کہا کہ افغان جنگ بہت طویل عرصے سے جاری ہے اور اس سے افغان معاشرے میں گہری تقسیم پائی جاتی ہے۔

انہوں نے کہا کہ جب امریکیوں نے فیصلہ کیا کہ افغانستان کا کوئی فوجی حل نہیں ہے تو انہوں نے وہاں سے انخلا کی تاریخ دی اور طالبان اس کامیابی کو فتح سمجھتے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ ’اب جب وہ یہ سمجھتے ہیں کہ انہوں نے جنگ جیت لی ہے تو پاکستان کے نقطہ نظر یہ ہے کہ بہت مشکل ہے کہ وہ کسی سیاسی تصفیے تک پہنچ پائیں‘۔

وزیر اعظم نے کہا کہ پاکستان، افغانستان میں خانہ جنگی کے امکان سے پریشان ہے، ایسی صورتحال میں پاکستان کو افغانستان کے بعد سب سے زیادہ نقصان اٹھانا پڑے گا۔

’پاکستان کو کورونا ویکسین عطیہ کرنے پر چین کے مشکور ہیں‘
چین کی جانب سے پاکستان کے لیے کورونا ویکسین سمیت 8 پروگراموں کے بارے میں سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ ’جس طرح چین نے کورونا کا مقابلہ کیا وہ منفرد تھا‘۔

ان کا کہنا تھا کہ ’چین کے پاکستان کو ویکسین عطیہ کرنے پراس کے شکر گزار ہیں، چین کے بعد پاکستان وہ ملک ہے جس نے بہتر انداز میں کورونا کا مقابلہ کیا‘۔

انہوں نے کہا کہ ’چین کی مدد سے ہم اپنے طبی عملے کو بروقت ویکسین لگانے میں کامیاب رہے‘۔

متعلقہ آرٹیکلز

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button