ڈریپ نے کووِڈ 19 وکیسن کی فروخت کیلئے طریقہ کار کا اعلان کردیا

اسلام آباد: ملک میں کورونا وائرس کی تیسری لہر جاری ہے ایسے میں ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی پاکستان(ڈریپ) نے کووِڈ 19 ویکسین کی زیادہ سے زیادہ قیمت کا فارمولا جاری کردیا۔

نجی اخبار کی رپورٹ کے مطابق نوٹیفکیشن کے مطابق امورِ قانون کے اسسٹنٹ ڈائریکٹر حافظ بلال بن اکبر کے دستخط سے کمپنیوں کے 40 فیصد جبکہ دکانداروں اور ہسپتالوں کے لیے 15 فیصد مارک اپ پر ویکسین کی فروخت کے 2 فارمولے منظور کیے گئے۔

پہلا فارمولا درآمد کی گئی تیار شدہ ویکسین سے متعلق ہے جو کہتا ہے کہ تجارتی نرخ اس کی درآمدی لاگت کے برابر اور 40 فیصد مارک اپ کے ساتھ ہوگی۔

دوسرے فارمولا بڑی مقدار میں درآمدی ویکسین کا ہے جسے مقامی سطح پر دوبارہ پیک کیا جائے گا جس کے مطابق تجارتی نرخ، درآمدی لاگت ساتھ پیکنگ کی لاگت اور کمپینوں کے لیے 40 فیصد مارک اپ کے برابر ہوں گے۔

مزید یہ کہ دکاندار یا ادارے قیمت کے 15 فیصد برابر کمیشن حاصل کرسکیں گے۔

نوٹیفکیشن میں کہا گیا کہ ‘ویکسین ڈریپ کے رجسٹریشن بورڈ کی جانب سے ہنگامی استعمال کی اجازت دینے کے لیے منظور یا رجسٹرڈ کی جائے گی، ویکیسن مارکیٹ میں فروخت یا تقسیم نہیں کی جانی چاہیے اور ویکسین کو نجی شعبے کے ہسپتالوں اور اداروں میں لگایا جائے’۔

وفاقی کابینہ کو ارسال کردہ ایک سمری کے مطابق روسی ویکسین اسپٹنک 5 کی قیمت 8 ہزار 449 روپے فی پیک تجویز کی گئی ہے جس میں 2 انجیکشن ہوں گے جبکہ سائنو فام (ایک خوراک والی چینی ویکیسن) 4 ہزار 225 روپے کی دستیاب ہوگی۔

تاہم یہ بات مدِ نظر رہے کہ ویکسین کو مارکیٹ میں فروخت یا تقسیم نہیں کیا جاسکتا اور اسے نجی ہسپتالوں یا اداروں میں لگوایا جاسکے گا۔

وزارت قومی صحت کے سیکریٹری عامر اشرف خواجہ کی تیار کردہ سمری میں کہا گیا کہ نئے کیمکل/بائیولوجیکل چیزوں کی زیادہ سے زیادہ خوردہ قیمت اس کے ممالک کے نرخ کی بنیاد پر مقرر ہوں گے۔

چنانچہ اس لیے وفاقی حکومت نے درآمدی لاگت پلس فارمولے کی بنیاد پر ویکسین کی قیمت مقرر کی ہے اور اسے ریگولیٹری آرڈر کے ذریعے نوٹیفائیڈ بھی کیا گیا۔

دوسری جانب وفاقی وزیر تعلیم نے اتوار کو رات گئے اعلان کیا کہ وزرائے تعلیم اور صحت ملک میں مزید تعلیمی اداروں کو کھولنے یا بند کرنے کا فیصلہ کرنے کے لیے 24 مارچ کو نیشنل کمانڈ اینڈ آپریشن سینٹر میں ملاقات کریں گے۔

انہوں نے ایک ٹوئٹر پیغام میں کہا کہ کورونا وائرس کی تیسری لہر سنگین ہے جس کے لیے محتاط جائزے کی ضرورت ہے’۔

متعلقہ آرٹیکلز

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button