احتجاجوں کے بعد لداخ کی خاموش فضا ء حکومتی دعوئوں کا پول کھول گئی


لیہہ (کے ایم ایس)غیر قانونی طور پر بھارت کے زیر قبضہ جموں و کشمیر کے علاقے لداخ میں 24 ستمبر کے احتجاج اور فورسز کی فائرنگ سے چار شہریوں کی ہلاکت کے ہفتوں بعد لیہہ کے مرکزی بازار اور سیاحتی علاقوں میں خاموشی چھائی ہوئی ہے، جو بھارتی حکام کے صورتحال معمول پر آنے کے دعوؤں کی قلعی کھول رہے ہیں۔
کشمیر میڈیا سروس کے مطابق ہوٹل اور گیسٹ ہاؤسز جو کبھی سیاحوں سے بھرے رہتے تھے، اب سنسان پڑے ہیں۔ کمروں کے کرائے 5 سے 10 ہزار روپے سے گھٹا کر صرف 500 سے ایک ہزار روپے تک کر دیے گئے ہیں، لیکن اس کے باوجود کوئی سیاح نہیں آ رہا۔بھارتی میڈیا گروپ انگریزی زبان کے ڈیجیٹل نیوز پورٹل نے رپورٹ کیا ہے کہ ٹیکسی اسٹینڈ خالی ہیں اور پورے لیہہ شہر میں مقامی آبادی سے زیادہ بھارتی فورسز کے اہلکار دکھائی دیتے ہیں۔لیہہ ہوٹل اینڈ گیسٹ ہاؤس ایسوسی ایشن کے صدر ریگزن واگمو لیچک نے کہا، ”ہم نے کبھی ایسے دن نہیں دیکھے۔ تشدد نے ہماری خوشیوں کو چھین لیا ہے اور لیفٹیننٹ گورنر کہتے ہیں کہ سب کچھ معمول پر ہے، لیکن ہماری زندگیوں میں کچھ بھی معمولی نہیں رہا۔”انہوں نے بتایا کہ پہلے پہلگام واقعے کے بعد سیاحت میں 50 فیصد کمی آئی تھی، لیکن حالیہ پرتشدد واقعات نے بحران کو مزید گہرا کر دیا ہے، جس سے نقصان 80 فیصد تک پہنچ گیا ہے۔ تقریباً دو ہزار ہوٹل اور گیسٹ ہاؤسز خالی پڑے ہیں۔ سیاحت لداخ کی مجموعی آمدنی کا نصف حصہ ہے اور عام طور پر اکتوبر میں ہی اگلے سال مارچ اور اپریل کی بکنگز شروع ہو جاتی ہیں، لیکن اس سال ایک بھی پیشگی بکنگ نہیں ہوئی۔ چند ہفتوں میں برفباری کے باعث علاقے کی رسائی بند ہو جائے گی۔ اگر ہم کچھ نہیں کمائیں گے تو اگلے چھ ماہ کیسے گزاریں گے؟۔
رپورٹ میں بتایا گیا کہ 24 ستمبر کے سانحے کے بعد 16 دن تک معطل رہنے والی انٹرنیٹ سروس جمعرات کو مقامی احتجاج کے بعد بحال کی گئی، تاہم کوئی سرکاری نوٹیفکیشن جاری نہیں کیا گیا۔ ضلع کلکٹر نے ”جھوٹی خبریں پھیلانے والوں”کے خلاف سخت کارروائی کی وارننگ دی ہے، جو صورتحال پر بیانیہ قابو میں رکھنے کی حکومتی کوششوں کو ظاہر کرتا ہے۔مقامی رہنماؤں کا کہنا ہے کہ حالات معمول پر آنے سے بہت دور ہیں۔ لیہہ ایپکس باڈی کے شریک چیئرمین شیرنگ دورجے نے بتایا کہ ”دفعہ 163 کے تحت پانچ سے زیادہ افراد کے جمع ہونے پر پابندی ہے۔ اسکول کھلے ہیں مگر کلاس روم خالی ہیں۔لیہ ٹیکسی یونین کے صدر تھنلیس نامگیال نے کہا، ”24 ستمبر کے بعد سے ہمیں ایک بھی بکنگ نہیں ملی۔ تقریباً 6 ہزار ٹیکسی ڈرائیور فارغ بیٹھے ہیں۔ ان کے خاندان روزی روٹی کے بحران کا شکار ہیں۔”
سماجی کارکن سونم وانگچک کی قیادت میں کیے گئے پرامن بھوک ہڑتالی احتجاج کے دوران بھارتی فائرنگ سے چار شہریوں کی ہلاکت کے واقعے کی تحقیقات تاحال غیر واضح ہیں۔ ڈپٹی کمشنر نے اگرچہ ایک ایس ڈی ایم کو انکوائری کے لیے مقرر کیا ہے، مگر لیہ ایپکس باڈی نے اس تفتیش کو جانبدار قرار دے کر عدالتی تحقیقات کا مطالبہ کیا ہے۔بھارتی حکام کی جانب سے امن و معمول کے دعوؤں کے باوجود لداخ کی خاموش سڑکیں، بند دکانیں اور بیکار مزدور ایک بالکل مختلف منظر پیش کر رہے ہیں — ایک ایسا منظر جو معاشی بدحالی، بے یقینی اور انصاف کے منتظر عوام کی کہانی سناتا ہے۔
The post احتجاجوں کے بعد لداخ کی خاموش فضا ء حکومتی دعوئوں کا پول کھول گئی first appeared on (کشمیر میڈیا سروس).
Source link


