بھارت کی نااہلی اور پروپیگنڈے کا ایک جائزہ » (کشمیر میڈیا سروس)

تحریر: ارشد میر

مقبوضہ جموں و کشمیر کے جنوبی ضلع کولگام کے بالائی اکہال علاقہ میں بھارتی فوج کا گذشتہ 11 روز سے بڑے پیمانے پر آپریشن چل رہا ہے جس میں  بہت بڑی تعداد میں فوجیوں، نیم فوجیوں ، پولیس اہلکاروں اور خصوصی  پیرا کمانڈوز کے علاوہ بم بروف ،بکتر بند  اور تیز روشنی پیدا کرنے والی گاڑیوں کے علاوہ ہیلی کاپٹرز اور ڈرونز کا جنگی پیمانے پر استعمال کیا جارہا ہے۔آپریشن کی نوعیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ  بھارتی فوج کی شمالی کمان  کے کمانڈر لیفٹنٹ جنرل پراتک شرما اور پولیس چیف نالن پربھات نے  بھی علاقہ کے  دورے کئے، حالات کا جائزہ لیا اور فوجیوں کو تھپکی دی۔

بھارتی فوج  کادعویٰ  ہے کہ علاقہ  کے گھنے جنگل میں مجاہدین چھپے ہوئے ہیں جن کے ساتھ  یہ طویل جھڑپ ہورہی ہے۔

قابل ذکر ہے کہ ماضی میں اسی نوعیت کے  بے شمار آپریشنز    کی طرح اس آپریشن میں بھی مقامی آبادی کو زبردستی منتقل کیا گیا ہے  جبکہ میڈیا کو 10 کلو میٹر دور رکھا گیا ہے۔ یعنی اس آپریشن کے بارے میں غیر جانبدار ذرائع سے خبروں کا آنا ناممکن ہے اور بھارتی فوج اپنے میڈیا کو جو کچھ فیڈ کرتی وہی "خبر”بنتی ہے۔

مگر اس آپریشن میں بھی بھارتی فوج  کئی صورتوں میں بے نقاب ہورہی ہے اور متعدد سوالات جنم لے رہے ہیں جن کے جوابات  اگر کوئی اور نہیں تو بھارتی عوام کو ضرور پوچھنے چاہئے۔

گذشتہ جمعہ کو شروع ہوئے اس آپریشن کے دوران بھارتی فوج نے مبینہ مجاہدین کو نقصان پہنچانے کے کئی دعوے کئے۔ مثلا  8 اگست کو بھارتی فوج کی چنار کارپس نے میڈیا کے لئے جو خبر جاری کی اس میں کہا گیا کہ 2 مبینہ عسکریت پسند مارےجبکہ دو بھارتی فوجی زخمی ہوگئے۔بارشوں اور دشوار  گذار و گھنے جنگل والا علاقہ ہونے کے سبب  مارے گئے عسکریت پسندوں کی لاشیں ملی ہیں نہ ان کی شناخت ہوسکی۔

پھر 9 اگست کو جو پریس ریلیز جاری کی گئی اس میں کہا گیا کہ 2 فوجی اور ایک "دہشتگرد” مارا گیا مگر  اسکی لاش نہیں  ملی چنانچہ اسکی شناخت بھی نہیں ہوسکی۔

یہ پہلا موقع نہیں ہے کہ بھارتی فوج کو  بقول اسکے”چند محصور مجاہدین” کے خلاف پوری جنگی طاقت کے استعمال کے ساتھ ہفتوں پر محیط  آپریشن کرنا پڑا۔

ایسی متعدد مثالیں ہیں۔  مثلا جنوری 2009 میں بھارتی فوجکو ایسے ہی محصور "مجاہدین” کے خلاف 9 دن تک آپریشن کرنا پڑا جس میں بھارتی فوج نےاپنے ایک جے سی او سمیت چار  فوجیوں کے مارے جانے کی تصدیق کرنے کے علاوہ چار مبینہ مجاہدین کو شہید کرنے کا بھی دعویٰ تو کیا تھا مگر  ساتھ ہی کہا کہ ان کی لاشیں جھڑپ کے مقام سے برآمد نہ ہو سکیں۔  اور پھردسویں روز آپریشن ختم کردیا گیا۔

اسکے تقریباً 13 سال بعداکتوبر 2021 میں اسی ضلع  پونچھ کی تحصیل سرنکوٹ کے  جنگلی علاقے ڈیرا کی گلی میں ایک اورآپریشن شروع کیا گیا تھا جو دو ہفتوں تک جاری رہا۔بھارتی فوج کا اپنا بیان تھاکہ اس  آپریشن میں مجموعی طور پر دو صوبیداروں سمیت اسکے  9 اہلکار مارے گئے۔اس آپریشن میں بھی فوج ، خصوصی پیرا کماندوز دستوں، نیم فوجیوں، ہیلی کاپٹروں، ڈرونز اور دیگر حربی سامان کا  بے مہار استعمال کیا گیاتھا۔ دی ہندو اور دیگر بھارتی اخبارات میں ابھی تک اس   بارے میں شائع شدہ رپورٹس میں یہ درج ہے کہ "جنگل میں چھپے دہشت گردوں کو تلاش کرنے کے لیے ڈرونز اور جدید ہتھیار استعمال ہو رہے ہیں،مگر زمینی صورتحال کے بارے میں واضح معلومات دستیاب نہیں۔ فوج نے اب تک صرف تحریری بیانات جاری کیے ہیں، جب کہ صحافیوں کو جھڑپ والے جنگلات کے 11 کلومیٹر کے اندر جانے کی اجازت نہیں ہے۔”

آپریشن کی طوالت اور اس میں سے  کچھ برآمد نہ ہونے پر بھارتی میڈیا میں  اس طرح کے تبصرے ہونے لگے تھے کہ  "یہ قیاس بھی کیا جا رہا ہے کہ مشرقی لداخ میں چین کے ساتھ فوجی تناؤ کے باعث بھارتی فوج کی طویل تعیناتی نے مغربی سیکٹر، یعنی جموں و کشمیر میں لائن آف کنٹرول پر انسدادِ دراندازی کے نظام کو کمزور کر دیا ہے”۔(دی ہندو)

بھارتی فوج نے  پردہ پوشی کے لئے یہ کہانی بھی گڑھ کر پریس کو دی تھی کہ "یہ علاقہ گھنے جنگلات پر مشتمل ہے اور ماہرین کے مطابق جھڑپ کی شدت اس بات کی علامت ہے کہ یہاں دہشت گردوں کا ایک بڑا گروہ موجود ہے۔ کچھ ماہرین کا خیال ہے کہ زمینی کارروائی کی قیادت ممکنہ طور پر پاک فوج کے افسران کر رہے ہیں”۔ اور پھر  بھارتی  فوج کے اسوقت کے سربراہ جنرل  جنرل ایم ایم نروانے علاقہ کا دورہ کیااور بھارتی میڈیا کے مطابق انھوں نے صورتحال کا جائزہ لیا اور دو روز تک وہاں رہنے کے بعد واپس دہلی روانہ ہوئے جس کے بعد  بھارتی فوج نے حتمی کاروائی شروع کردی۔  یہ حمتی کاروائی کیا تھی کہ کوٹ بھلوال جیل میں 14 برسوں سے قید راولاکوٹ آزاد کشمیر کے ایک شہری ضیاء مصطفیٰ کو جیل سے نکال کر اس جنگلی علاقہ میں لایا گیا اور فرضی تصادم میں شہید کرکے بڑے "اگروادی” کو مارگرانے کا دعویٰ کیا۔  فوجی کہانی میں کہا گیا کہ ضیاء مصطفیٰ کو علاقہ میں اپنے ساتھوں کی شناخت کے لئے لایا جارہا تھا کہ انھوں نے فائرنگ کے اسکو مار دیا۔

کیا  یہ ممکن تھا کہ ضیاء مصطفیٰ  کا جیل سے اپنے ساتھیوں سے رابطہ میں ہوتا اور  اس کے ساتھی  14 سال سے اس علاقہ میں سرگرم  اور ضیاء کے لئے قابل شناخت  ہوسکتے تھے؟ کیا اتنے طویل عرصہ میں مجاہدین کی صفوں میں کوئی تبدیلی نہیں آنی تھی؟

اور کیا مہان اورطاقت وربھارتی فوج اتنی نااہل تھی کہ 14 سال  سے ضیاء مصطفی کے ساتھیوں کا وہ کچھ نہ بگاڑ سکی؟

مگر اسوقت بھارتی میڈیا اور عوام نے یہ سوال کئے اور نہ اب کئے جارہے ہیں؟

آیا ان جھڑپوں کی صحت درست ہے یا نہیں اس سے پہلے سوال بھارتی فوج کی اہلیت پہ آتا ہے۔

عددی اعتبار سے دنیا کی دوسری اور ہتھیاروں سمیت عسکری قوت کے اعتبار سے  چوتھی  بڑی فوج، جسکو مقبوضہ جموں و کشمیر کے علاوہ اپنی شمالی ریاستوں میں  عسکری مزاحمت یا شورش سے نمٹنے کا  69 سالہ تجربہ بھی ہے  کیا اتنی نااہل  ہے کہ  اسے چند  ٹوٹی پھوٹی بندوقوں  اور غیر تربیت یافتہ مزاحمت کاروں  کو گھیرے میں لینے کے باوجود بھی ان کو زیر کرنے میں دنوں پہ دن اور ہفتوں کے ہفتے لگتے ہیں ؟

اس ہمالیائی سائز کے سوال کا کون جواب دے گا کہ ہفتوں تک محصور رہنے والے یہ مجاہدین یا "آتنگ وادی” زندہ رہنے کے لئے کہاں سے کھانا ،پانی اور لڑنے کے لئے ایمونیشن لاتے ہیں؟کیا آئی ایس آئی وٹس ایپ کے ذریعہ انکو ایمونیشن بھیجتی ہے؟  وہ کیسے نیند سمیت دیگر جسمانی ضروریات پوری کرتے ہیں؟ کیا وہ روبوٹ ہیں؟

یہ ہیں کون؟ کہاں سے آتے ہیں، کہاں سے تربیت  اور ہتھیار حاصل کرتے ہیں اور کون کتنی بار پاکستان گیا؟

بھارتی  حکومت یہ جاننے اور دنیا کو دکھلانے کے لئے  کسی بین الاقوامی ایجنسی کے ذریعہ اس کی تحقیقات کیوں نہیں کراتی ؟

کم از کم اس بات کا ہی پتہ لگوائے کہ 9/11 کے بعد سے کشمیری نوجوانوں میں سے کتنے فیصد نے بندوق اٹھائی اور بندوق اٹھانے والے مقامی ہیں یا  غیر مقامی؟ اور سب سے بڑھ کر یہ کہ انھوں  بندوق اٹھائی کیوں ہے؟
محبوبہ مفتی جب وزیر اعلیٰ تھیں تو انھوں نے ریاستی اسمبلی میں ایک رکن کے  سوال کے تحریری جواب میں پوری تفصیل بتائی تھی کہ  جموں و کشمیر میں گذشتہ کئی برسوں سے  سرکاری اسلحہ خانوں سے کتنا اور کس نوعیت کا اسلحہ غائب ہوگیا اور کتنے فورسز و پولیس  اہلکاروں سے اسلحہ چھین لیا گیا۔ کیا اس سنگین معاملے کی تحقیقات ہوئیں کہ وہ اسلحہ کہاں گیا، کس کے ہاتھ لگا اور سرکاری اسلحہ خانوں سے اسلحہ بیچنے والے کون تھے؟

اب اگر بھارتی الزامات اور پروپیگندہ کے مطابق یہ سب پاکستان کرارہا ہے اور یہ پاکستان سے آئے”آتنک وادی” ہوتے ہیں تو انھیں فوجی آپریشنز میں گرفتار کرنے کے بجائے ترجیعا شہید ہی کیوں  کیا جاتاہے جبکہ اکثر مواقعوں پہ انکا زندہ پکڑا جانا بھارتی بیانیہ اور الزامات کو درست ثابت کرنے کے لئے  ضروری ہوتا ہے؟ حالیہ  داچھی گام سرینگر کی   جعلی جھڑپ  تازہ مثال ہے جس میں شہید کرنے والوں کو پہلگام میں  سیاحوں کو قتل کرنے والے قرار دیا گیا۔ انھیں اس بنیاد پر پاکستانی قرار دیا گیا کہ ان کے پاس سے ووٹر کارڈ اور چاکلیٹس برآمد کی گئیں۔  حالانکہ ووٹر کارڈ پاکستانیوں کے پاس ہوتا نہیں اور چاکلیٹس اتنا عرصہ خراب ہوئے بنا  رہ نہیں سکتی تھیں۔ نہ کوئی تحقیقات، نہ عدالتی کاروائی، نہ فرانزک، نہ ڈی این اے ، نہ شناخت کا کوئی معقول طریقہ، بس یہ قرار دیا جانا کافی ہے کہ وہ پاکستانی ہیں اور اگر پارلیمنٹ میں کوئی سوال کرے کہ یہ کیسے پاکستانی ہوئے،اس جھڑپ کی صحت کیسے مشکوک نہیں؟  تو اسکو ڈانٹ کر کہا جائے کہ "آپ کو اپنی فوج ، گرہِ منتری  اور رکشا منتری  کے بیان پر اعتبار نہیں ہے؟”
جب بھارتی فوج، حکومت اور میڈیا نے آج تک متعدد بار کہا کہ مبینہ دراندازی مکمل بند ہوگئی ہے۔ مثلا:

  • اکتوبر 2007میں لیفٹیننٹ جنرل ٹی کے سپرو، کمانڈر 16 کور (نگروٹہ)، نے کہا کہ مؤثر باڑ اور نگرانی کے اقدامات کی بدولت دراندازی کو "تقریباً صفر” کی سطح تک لے آیا گیا ہے۔ بحوالہ: یو پی آئی
  • جون 2011میں لیفٹیننٹ جنرل سید عطاء حسنین، کمانڈر 15 کور، نے کہا کہ کشمیری وادی میں 20 سال میں پہلی بار دراندازی "صفر” تک آ گئی ہے اور اس سال کسی عسکریت پسند نے دراندازی نہیں کی۔ بحوالہ  دی انڈین ایکسپریس
  • سال 2015میں لیفٹیننٹ جنرل سبرت ساہا، کمانڈر 15 کور، نے کہا کہ کشمیر میں شورش کے آغاز کے بعد پہلی بار  پچھلے 7 ماہ میں کوئی بھی درانداز وادی میں داخل نہیں ہو سکا۔ بحوالہ دی انڈین ایکسپریس
  • 2021میں اخبار دی نیو انڈین ایکسپریسکی اپریل 2021 کی ایک رپورٹ کے مطابق مسلسل دوسرے سال بھی، سال کے ابتدائی تین ماہ کے دوران وادی کشمیر میں لائن آف کنٹرول کے پار دراندازی "صفر” رہی۔ اس کی وجہ جدید انسدادِ دراندازی ڈھانچے اور سخت سردیوں میں بھاری برفباری کو قرار دیا گیا۔

پاکستان پر  مسلسل الزامات کیوں لگائے جاتے ہیں؟

اگر 2007 سے 2021  کے درمیان  14 برسوں میں کوئی دراندازی ہونے کی تصدیق بھارتی فوج کے متعلقہ کمانڈروں نے بند دروازوں کے اندر اجلاسوں میں نہیں بلکہ عوامی سطح پر اپنے دعوؤں اور بیانات میں کی تو بھارتی فوج نے اس  طویل عرصہ میں کن لوگوں کو خونی آپریشنز میں ماردیا اور حکومت کس بنیاد پر پاکستان کے اوپر الزام تراشیاں کرتی رہی؟

کیا یہ اپنی ناہلی چھپانے کا آسان  راستہ ہے یا  فنڈس کو "حلال” کرنے کا بہترین طریقہ؟

بھارت کی 2011 کی مردم شماری سے اعداد لیں تو 16 تا 30 سال کے کشمیری نوجوانوں کی تخمینا کل تعداد 34 لاکھ بنتی ہے۔ بھارتی فوج نے گزشتہ سال ایک بیان میں دعویٰ کیا کہ جموں وکشمیر میں اب سرگرم مجاہدین کی تعداد صرف 80 رہ گئی ہے۔ اگر ہم 34 لاکھ میں 80 کی شرح نکالیں تو یہ 0.000024 فیصد بنتی ہے۔  کیا 0.000024 فیصد نوجوانوں کی مسلح مزاحمت کا جواب یہ بنتا ہے کہ پوری کشمیری قوم پر 10 لاکھ فورسز مسلط کرکے دن رات ان کے اوپر ظلم و ستم کیا جائے؟ 80 مجاہدین کے لئے اتنے  بڑے آپریشنز  اور وہ بھی لاحاصل؟

کیا بھارت اس طرح ثابت نہیں کررہا کہ اسکی لڑائی پوری کشمیری قوم کے خلاف ہے کیونکہ تمام کشمیری اس سے آزادی کے خواہاں ہیں اور انھیں کچلنے کا عسکریت صرف ایک بہانہ ہے؟

کہا جاتا ہے کہ گزشتہ 35 برسوں کے دوران زیادہ سے زیادہ 60 ہزار کشمیری نوجوانوں نے بندوق اٹھائی۔ پھر بھی یہ محض 1.76 فیصد بنتا ہے۔ تو اگر بھارت کی دس لاکھ فورسز تمام تر وحشیانہ اختیارات اور کالے قوانین کی ڈھال کے ساتھ ہر ظلم وجور کرنے کے باوجود  35 سال کے طویل عرصہ میں اس پونے دو فیصد کو  بھی ختم نہ کرسکی تو اسکی ذمہ داری کا بار کس پہ آتا ہے؟

کیا یہ شرمناک نااہلی نہیں ہے اور کیا اس نااہلی کو چھپانے یا اسکی تکلیف سے بچنے کا یہی راستہ ہے کہ پاکستان کے خلاف پروپیگنڈہ کرو؟

کب تک بھارت پاکستان کے خلاف الزامات اور کشمیریوں کی جائز اور مقامی تحریک کو بیرونی ایما پر دہشتگردی قرار دینے کے پیچھے چھپنے کی کوششیں کرتا رہے گا؟

بھارت کی سیاسی اور سیکیورٹی اسٹیبلشمنٹ کا ہر داخلی مسئلے میں پاکستان کو ملوث کرنے کا رجحان دراصل ایک منظم بیانیہ ہے جو عوامی جذبات کو بھڑکانے، مخالف آوازوں کو دبانے اور اپنی ناکامیوں پر پردہ ڈالنے کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ یہ رویہ وقتی سیاسی فائدہ تو دے سکتا ہے مگر طویل المدتی طور پر بھارت کی ساکھ کو نقصان پہنچاتا ہے، کیونکہ بار بار بے بنیاد الزامات نہ صرف اس کی تفتیشی و حکومتی صلاحیتوں پر سوال اٹھاتے ہیں بلکہ یہ تاثر بھی دیتے ہیں کہ دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت اپنے مسائل خود حل کرنے کی اہلیت نہیں رکھتی۔ اس طرح بھارت خود اپنی نااہلی کو عیاں کرتا ہے۔

 


Source link

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button